کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 16
اس خوف کو پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے اہل مغرب کو خبردار کرتے ہوئے اپنے مضمون کو عنوان دیا ہے:’’ خبردار مسلمان آرہے ہیں!‘‘ اس نے اہل یورپ میں تعصب پیدا کرتے ہوئے اُنہیں راہ سجھائی کہ ’’یورپ کا معاشرہ وسیع پیمانے پر ایشیائی لوگوں کی ہجرت کے لئے تیار نہیں ہے، ان تارکین وطن میں مسلمان سب سے زیادہ خطرناک ہیں ۔‘‘
جارج ٹاؤن یونیورسٹی، واشنگٹن کا اُستاد جان ایل اسپوزیٹو لکھتا ہے کہ
’’جدید دور کے پیشین گوئی کرنے والے ماہر نجوم کہہ رہے ہیں کہ کچھ ہی دہائیوں میں پورے یورپ پر اسلام کی حکومت ہوگی، اور اس صدی کے آخر تک یورپ سے یُورَیْـبِیا (یورپ اور عرب کی مشترکہ حکومت کا نام) کی حکومت قائم ہوچکی ہو گی۔ میڈیا، سیاسی مبصرین اور رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کو اسلامی دہشت گردی بآسانی ہدف بنا سکتی ہے۔ یہ ایک ظاہر وباہر حقیقت ہے کہ مسلمان مخلوط یورپی قوم کا حصہ ہیں ، اسلام اب یورپ کا مذہب ہے۔ حقیقت میں اسلام اب بعض یورپی ممالک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے جس کے ماننے والے اب اوّل اور ثانوی درجے کی یورپی شہریتیں بھی حاصل کرچکے ہیں ۔ ‘‘
مغربی اِداروں کے پیش کردہ اَعداد وشمار کے مطابق اسلام اس وقت مغرب کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور ۲۰۵۰ء میں اس کے پہلے بڑے مغربی مذہب ہونے کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ ان حالات میں اہل یورپ کا خوف اور ان کے مظالم اُنہیں اسلام کے خلاف سنگین جارحیت پر آمادہ کرتے ہیں ۔ یورپ کے مختلف ممالک کی سیاسی تنظیمیں مثلاً ڈنمارک پیپلز پارٹی، آسٹرین فریڈم پارٹی، ہنگارین جابک پارٹی، برطانوی نیشنل پارٹی، گریٹ وائل کی فریڈم پارٹی نے یورپ میں مختلف انتخابات کے دوران مسلمانوں کی مذہبی رسومات اور اسلامی شعائر کے خلاف پابندی کی کھلے عام تحریک چلائی ہے۔ حتی کہ ہالینڈ میں وائلڈر کی اینٹی فریڈم مسلم پارٹی نے تو یہاں تک دباؤ ڈالا ہے کہ
’’ مسلمانوں کی یورپ سے بے دخلی بے حد ضروری ہے، اور ہالینڈ سمیت یورپ کے لوگوں کو اسلام کے بڑھتے اثرورسوخ کے خلاف اپنے ووٹ کی قوت کو استعمال کرنا چاہئے۔ ‘‘
اسلامی قوت کے ان دعوؤں کا مقصد یہ ہے کہ مغرب میں اسلام کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور اس چشمہ صافی کو منہ زو ردھارا بننے سے قبل ہی بند کردیا جائے۔یورپی حکومتوں کے حالیہ انسدادی اورقانونی اقدامات اسی رویے کا مظہرہیں ۔