کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 15
جارہا ہے؟اس کے پیچھے درحقیقت کیا عوامل کارفرما ہیں اور اس سے مستقبل میں اسلام اور یورپ کے مابین تعلقات پر کیا اثر پڑے گا…
1.اہل مغرب کے اس رویے کے پس پردہ دراصل اسلام کا خوف پوشیدہ ہے، جو حقائق سے بڑھ کر وہاں کے متعصب میڈیا کا پھیلایا ہوا ہے۔ اس ابلاغی پروپیگنڈہ کی قیادت یہودی کررہے ہیں ، تاکہ اس کے ذریعے اسلام اور ملت ِاسلامیہ کے خلاف مغرب کو جمع ومتحد کیا جائے۔ امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں اپنے اور یورپی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے میڈیا میں اسلام کے خلاف ابلاغی جنگ شروع کی ہوتی ہے جس میں مسلمانوں کو تہذیب وتمدن سے نابلد اور اُجڈ و گنوار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
نائن الیون کے بعد کے سالوں میں تدریجا ً یورپی اقوام میں اسلام کے بارے میں پائی جانے والی یہ حساسیت مغربی میڈیا کا اپنا کیا دھرا ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ سوئٹرز لینڈ میں ۴۰ ہزار مسلمانوں کے لئے میناروں والی محض تین مساجد، بلجیم میں ۶ لاکھ میں سے یک صدنقاب لینے والی خواتین، فرانس کے ۶۰ لاکھ مسلمانوں میں سے صرف ۲ ہزار منہ ڈھانپنے والی مسلمان عورتیں ؛ کوئی ایسی تعداد نہیں جس پر خوف کا شکار ہوا جائے اور اس کے لئے منظم پیش قدمی اور ٹھوس قانون سازی شروع کردی جائے۔
اس خوف کو اس وقت مزید ہوا دی گئی جب امریکہ جیسی نام نہاد سپرپاور کو عراق وافغانستان میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ظالمانہ جارحیت اور ہلاکت وبربریت کے بدترین مظاہرے کے بعد مسلمانوں کا امریکی افواج کو قدم نہ جمانے دینا ان کو شدیدخوف میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھا۔ اس سلسلے میں بعض امریکی دانشوروں نے اسلامی دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرنے میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے اُمور کا متعصب یہودی ماہر برنارڈ لیوس، جو بش کابینہ کا مشیر بھی رہا ہے، اس نے عراق جنگ میں امریکہ کی ناکامی کے بعد اہل یورپ کو ملامت کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ اسلام کے ہاتھوں تحقیر کا ذریعہ بن چکے ہیں ، جمہوری حقائق کے نام پر اہل یورپ کثیر تہذیبی دوڑ میں پھنس چکے ہیں ۔‘‘ اس نے الزام لگایا کہ اس صورتحال میں اہل مغرب وفاداریاں کھورہے ہیں اور اعتماد کی کمی کے باعث اپنی تہذیب سے برگشتہ ہورہے ہیں ۔
توہین آمیز خاکوں کے مکروہ منصوبے کے خالق مشہور امریکی یہودی ڈینیل پائپس نے بھی