کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 14
ہوگی، ایسی خواتین سرکاری ملازمت اور سرکاری علاج کی سہولت حاصل نہ کرسکیں گی۔ فرانس کے ۲۰۰۳ء کے فیصلے کے بعد تیونسی حکمرانوں نے اس پابندی کو زور وشور سے نافذ کرنے کی مہم شروع کردی اور ۲۰۰۶ء میں پبلک مقامات پر سکارف پہننے والی مسلم خواتین کو دھرلیا جاتا، اور آئندہ اس جرم کو نہ کرنے کا تحریری حلف لے کر ہی ان کو جانے کی اجازت دی جاتی۔ تیونسی صدر زین العابدین کا اِلزام ہے کہ حجاب سنی مسلمانوں کے ایک مخصوص فرقے کالباس ہے جو تیونس میں باہر سے آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلامی جماعتیں حجاب وسکارف کو اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لئے استعمال کرتی ہیں ۔
ان مسلم ممالک میں حجاب پر پابندی سے یورپی حکومتیں اپنے لئے تائید حاصل کرتی ہیں ۔ جو مسلم عورتیں اسلامی تقاضوں کے عین برعکس حجاب نہیں پہنتیں ، ان کوبے جا اُبھارا جاتا ہے۔ چنانچہ ستمبر ۲۰۰۳ء میں فرانس میں پابندی عائد کرنے سے ۴ روز قبل فرانس کے صدر نے تیونس کا پانچ روزہ دورہ کیا او رفرانسیسی اخبارات میں ’بے حجاب تیونس‘ کے نام سے مکمل صفحات مختص کرکے اُنہیں بڑے پیمانے پر فرانس میں مفت تقسیم کیا گیا۔افسوس کہ مسلمانوں کا اپنا کردار اسلام کے لئے شرمناک بن چکا ہے۔
٭ بنگلہ دیش میں بھی کچھ عرصہ قبل عدالت ِعظمیٰ اپنے فیصلے میں نقا ب پرپابندی کی تلقین کر چکی ہے۔ اس فیصلے کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے پاکستان میں جسٹس ناصرہ جاوید اقبال نے،جو شاعر مشرق علامہ اقبال کی بہو ہیں ، مارچ ۲۰۱۰ء میں یہ’ ارشاد فرمایا‘ ہے کہ پاکستان میں بھی برقعہ پرپابندی ہونی چاہئے۔ یوں تواُنہوں نے ا سے مشرقِ وسطیٰ سے درآمد کا طعنہ دیا ہے، لیکن یورپ میں نقاب پر جاری بحث مباحثہ کے تناظر میں ان کے بیان کی معنویت بالکل واضح ہے۔ ان کی اس ہزرہ سرائی پر اخبارات میں کافی بیانات شائع ہوچکے ہیں ۔ ازبکستان میں بھی نقاب پہننے والی خواتین اور داڑھی والے مسلمان مردوں کو انتہاپسند قرار دے کر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ خلیجی ملک کویت میں بھی ۲۰۰۵ء سے نقاب پہن کرڈرائیونگ پر پابندی عائد ہے جبکہ کویت یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں خواتین کیلئے سر ڈھانپنا بھی قانوناً ممنوع ہے۔
تجزیہ و تبصرہ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا