کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 13
ایسا ہی تبصرہ عاصمہ جہانگیر کے ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کی عہدیدار حنا جیلانی نے بھی کیا او رحجاب پر پابندی کو ناروا اور خواتین کی آزادی کے مخالف قرار دیا۔ مسلم ممالک کی صورتحال افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک طرف مغربی ممالک کو اسلامی شعائر سے شدید خوف کا سامنا ہے اور وہ اسے اپنی لبرل معاشرت کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں تو ان مغربی ممالک کی تقلید میں چلنے والے مسلم حکمران بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں ۔ ٭ ۲۰۰۳ء میں فرانس میں منظور ہونے والے اس قانون سے تقویت پکڑتے ہوئے ترکی میں بھی حجاب پر پابندی کی توثیق کی گئی جب کہ سیکولر ملک ہونے کے ناطے ترکی میں پہلے سے ہی یونیورسٹیوں اور سرکاری عمارتوں میں حجاب سکارف لینے پر پابندی عائد ہے۔ ۱۹۹۸ء میں استنبول یونیورسٹی کی طالبہ لیلیٰ ساہن نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں اپنا مقدمہ دائر کیا تھا کہ حجاب پر پابندی کے بعد کالج میں داخل نہ ہونے سے اس کا حق تعلیم متاثر ہوتا ہے او ر وہ امتیاز کا نشانہ بنتی ہے، لیکن یورپی عدالت نے فرانس میں قانون آجانے کے بعد ۱۰/نومبر ۲۰۰۵ء کو اپنی رولنگ میں یہ قرار دیا کہ سکارف پر استنبول یونیورسٹی کا رویہ بجا ہے، کیونکہ سکارف کی اجازت کسی ایک مذہب کو ترجیح دینے کی بات ہے ، اور اس پر پابندی لگانا امن کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ یاد رہے کہ ترکی میں حجاب پر پابندی اس وقت سے نافذ ہے جب سے یہاں مصطفی کمال اتاتر ک نے سیکولر دستور نافذکیا تھا، اس سیکولر ازم کی ترک فوج اور عدلیہ ہمیشہ سے نگران اور محافظ رہی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں طیب اردگان اور عبد اللہ گل کی حکومت میں سکارف کو پبلک مقامات پر جائز قرار دلوانے کی کوشش کی گئی اور موجودہ ترک صدر عبداللہ گل کی اہلیہ پارلیمنٹ کی تقریب میں حجاب پہن کر شریک ہوئیں تو اس پر ترکی میں اس فعل پر شدید مباحثہ شروع ہوگیا جس پر عبد اللہ گل کو نااہلی کا خدشہ لاحق ہوا تاہم سیکولر عدلیہ نے اس صورتحال پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ فکر مندی کا لمحہ یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک مثلاً فرانس وغیرہ کی عدلیہ حجاب پر پابندی کو ناپسندیدہ قرار دیتی ہے، جبکہ مسلم ممالک کی عدلیہ حجاب کی اجازت کو ناگوار خیال کرتی ہے!! ٭ ایسی ہی صورتحال کا مسلم خواتین کو تیونس میں بھی سامنا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں تیونس میں یہ قانون پاس کیا گیا تھا کہ عوامی مقامات سکولوں اور سرکاری دفاتر میں حجاب پہننے کی ممانعت