کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 12
’’میں ابلاغیات کی طالبہ رہی ہوں او ر میرے حجاب ونقاب نے کسی مقام پر میرے لئے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ ہمارا معاشرتی رابطہ بھی مستحکم ہے اور یہ بات درست نہیں کہ رابطے کے لئے چہرہ کو کھلا رکھنا ضروری ہے۔ بعض مسلمان عورتیں اپنا سر اورمنہ ننگا رکھتی ہیں ، یہ ان کا ذاتی فعل ہے او رمجھے افسوس ہے کہ ہم تمام مسلمان دین پر عمل کرنے میں ایک جیسے کیوں نہیں ۔ تاہم یہ کہنا کہ ہمارے دین اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے، یہ دعویٰ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہمارے نبی کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اپنے آپ پر پورا ایسا ہی لباس پہنتی تھیں اور خود کو پوری طرح ڈھانپ کر رکھتی تھیں ۔ اُنہوں نے مزید کہاکہ حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام بھی پردہ کر تی تھیں اور میں نے ایسی کوئی تصویر نہیں دیکھی جس میں وہ نقاب سے نہ ہوں ۔ اگر فرانس میں یہ قانون پاس ہوگیا کہ نقاب کرنا منع ہے تو میں اس پر کیسے عمل کروں گی؟ میں ۱۲ سال سے پردہ کررہی ہوں اور یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ فرانسیسی جو عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ، مسلم خاتون کے ساتھ یہ جبر روا رکھیں گے۔ ہر عورت کو اپنی پسند اور مذہب کے مطابق لباس پہننے کی آزادی حاصل ہے اور میں نے بے نقاب نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر مجھے بے نقاب ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ آزادی تو نہ ہوئی۔ اگر ہمیں جرمانے ادا کرنے کو کہا جاتا ہے تو ہم جرمانے نہیں دیں گے، کیونکہ کسی کو اپنی پسند کا لباس پہننے سے روکنا یورپی قانون کے سراسر خلاف ہے۔ خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمے گا، کیونکہ ہم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو غلط ہو۔‘‘ (بی بی سی:۲۳ جنوری ۲۰۱۰ء) حجاب پر فرانس کی اس پابندی کو لادین حلقے بھی ناگوار سمجھتے ہیں ۔ بی بی سی جو اپنے لبرل اورمتعصب تبصروں کی بنا پر مشہور ہے، کے ہندو تبصرہ نگار انور سن رائے نے ۲۷/جنوری ۲۰۱۰ء کو اسے ’فرانس کی لبرل جارحیت‘ سے تعبیر کیا۔ بی بی سی کا تبصرہ نگار طالبان کے خلاف اپنے تعصب کے اظہار کے ساتھ اس صورتحال پر یوں رائے زنی کرتا ہے : ’’ایران اور افغانستان میں جو کچھ اسلام کے نام پر ہوا، وہ فرانس میں ثقافت کے نام پر کیا جارہا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نقاب اُتروانے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال کرنے والوں کو برقعہ ، چادر اور حجاب پہننانے کے لئے طاقت استعمال کرنے والوں سے الگ کیسے کیا جائے۔ وہ اگر اسلامی شدت پسند ہیں تو یہ لبرل شدت پسند۔ اگر ہم اس پر کچھ نہیں کرسکتے تو کم ازکم فرانس کے زوال اور انفرادی آزادی کی موت پر گریہ تو کرہی سکتے ہیں !!‘‘