کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 11
کے خلاف انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اور فیفا انٹرنیشنل نے اپریل ۲۰۱۰ء میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ سرڈھانپنے والی خواتین پر مشتمل ٹیم کو کسی ایونٹ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پر ایران نے او آئی سی اور مسلم ممالک کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کہ وہ کھیلوں کی ان عالمی تنظیموں کے خلاف اپنا دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوں ۔ جوابی ردّ عمل یورپی ممالک برقع اور حجاب کے مقبول ہونے کے شدید خوف میں مبتلا ہیں جبکہ مسلم خواتین کے اس مطالبہ کو مغربی خواتین بھی ان کا جائزحق قرار دیتی ہیں اور کینیڈا میں کچھ عرصہ سے ۲۶/اکتوبر کو عالمی حجاب ڈے کے طورپر منایا جارہا ہے جس میں غیر مسلم خواتین بھی اظہارِ یک جہتی کے طورپر ان کے ساتھ شریک ہوتی ہیں ۔ اس دن خصوصی طورپر متحرک ہونے والوں میں میک ماسٹر یونیورسٹی کے فرانسیسی شعبہ کی پروفیسر میریل واکر بھی ہیں جو عیسائی ہونے کے باوجود حجاب کو مسلم خواتین کا حق سمجھتی او راس کے لئے جدوجہد کو ضروری قرار دیتی ہیں ۔ فرانس میں ۲۰۰۳ء کو لگنے والی پابندی کے بعد ۲۰۰۴ء میں امریکہ میں خواتین کی ایک تنظیم نے ’فریڈم اِن حجاب‘ کے نام سے مسلمان خواتین کے حق میں مہم چلائی۔ اسی طرح جنوری ۲۰۰۴ء میں علامہ یوسف القرضاوی کی زیرقیادت حجاب مخالف رجحانات کے دفاع کے لئے لندن میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس ’اسمبلی فار دی پروٹیکشن آف حجاب‘ کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس نے ۴ ستمبر کو ’عالمی یومِ حجاب‘ قرار دے کر، مسلم خواتین کو اس پر منظم کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ فرانس میں اس پابندی کا سامنا کرنے والی مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکومت کی یہ سیاسی حکمت ِعملی ہے اور مسلمانوں کو دباؤ میں رکھنے پر سارے فرانسیسی ہمیشہ متحد ہوتے ہیں ، ان میں رواداری کے تمامتر دعووں کے باوجود مذہبی تعصب پوری شدت سے پایا جاتا ہے۔ فرانس کے اصل باشندے اپنے بارے میں خود پسندی کا شکار ہیں اوراپنے سے مخالف تہذیب کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ فرانس میں ہی پیدا ہونے والی ایک مسلم خاتون کرسٹل وش کا کہنا ہے کہ میں اس پر بالکل حیران نہیں کیونکہ ایسا کرنا فرانسیسی ذہنیت کا حصہ ہے، البتہ دکھی ضرور ہوں کہ وہ کیا اس حد تک بھی جاسکتے ہیں ؟!ان کا کہنا ہے کہ