کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 10
لے لیا۔ اس سے فرانس میں ا س بارے شدید تناؤ کی کیفیت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
واضح رہے کہ برقعہ پر پابندی کے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر فرانس کی آئینی عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دے کر اس پر نظر ثانی کی تلقین کی۔ عدالت نے کہا ہے کہ ’یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس‘ کے چارٹر میں لوگوں کو مرضی کا لباس پہننے کا حق دیا گیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں فرانس کی یہ آئینی عدالت بھی اسی طرح حکومت کو متنبہ کرچکی ہے، لیکن آخر کار اس کا کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ اس عدالت کا رویہ دوہرا ہے، ایک طرف سٹیٹ کونسل نے پیش کردہ قرار داد کو جس کے حق میں ایوان میں ۴۳۴ ووٹ پڑے ہیں ، غیرآئینی قرار دینے کا اِمکان ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا اقدام فرنچ آئین اور ’انسانی حقوق کے یورپی کنونشن‘ کے مخالف ہوسکتا ہے تو دوسری طرف پبلک مقامات پر نقاب کو سیکورٹی وجوہات او ردھوکہ دہی کے خاتمے کے لئے درست قرار دیے جانے کا بھی امکان پیش کیا ہے۔
٭ فرانس میں جاری نقاب پر اس بحث مباحثہ نے برطانیہ میں ا س موضوع کو ماضی کی طرح دوبارہ تازہ کردیا ہے۔ فروری ۲۰۱۰ء میں برطانیہ میں کئے جانے والے ایک سروے میں قرار دیا گیا کہ ایک تہائی برطانوی نقاب پر پابندی عائد کروانا چاہتے ہیں ۔ یوکے انڈیپنڈنٹ پارٹی نے اس پابندی کی کھلم کھلا حمایت کی اور ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ برقعہ او رحجاب آزادی اور جمہوریت کے مخالف ہیں اور ہمارے کلچر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ اگر یورپی عورتیں برہنہ اور عریاں ہونے کو بے تاب ہوتی ہیں تو اس وقت کوئی قانون ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتا او رہم اس پر اعتراض نہیں کرتیں تو پھر اپنی توقیر ، وقار او رلوگوں کی ہوسناک نظروں سے بچنے کے لئے ہمارا حجاب و نقاب استعمال کرنے کا حق کیوں چھینا جارہا ہے؟ برطانیہ میں نقاب کے بارے میں شدت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ گذشتہ ماہ لیسٹر میں ریحانہ سدات نامی ایک راہ چلتی مسلم خاتون کا نقاب ایک برطانوی نوجوان نے نوچ لیا جس پر عدالت نے نوجوان کو ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا ۔
٭ حجاب کے خلاف اس دیوانہ وار مہم میں یورپ کے ساتھ کھیلوں کے عالمی ادارے بھی شریک ہیں ۔ چنانچہ ایران کی خواتین فٹ بال ٹیم(جو سرڈھانپ کر کھیل میں شریک ہوتی ہے)