کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 9
آئین ودستور ۳۱ علماے کرام کے بائیس نکات اسلامی حکومت کے بنیادی اُصولوں کے حوالے سے ۱۹۵۱ء میں جملہ مکاتب ِفکر کی طرف سے متفقہ طور پرمنظور کردہ مدت ِ دراز سے اسلامی دستور ِ مملکت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ اسلام کاکوئی دستورِ مملکت ہے بھی یا نہیں ؟ اگر ہے تو اس کے اُصول کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہوسکتی ہے؟ اور کیااُصول اور عملی تفصیلات میں کوئی چیز بھی ایسی ہے جس پر مختلف اسلامی فرقوں کے علما متفق ہوسکیں ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے متعلق عام طور پر ایک ذہنی پریشانی پائی جاتی ہے اور اس ذہنی پریشانی میں ان مختلف دستوری تجویزوں نے اور بھی اضافہ کردیاہے جو مختلف حلقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں ۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تمام اسلامی فرقوں کے چیدہ اور معتمد علما کی ایک مجلس منعقد کی جائے اور وہ بالاتفاق صرف اسلامی دستور کے بنیادی اُصول ہی بیان کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان اُصولوں کے مطابق ایک ایسا دستوری خاکہ بھی مرتب کردے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے قابل قبول بھی ہو۔ اس غرض کے لیے کراچی میں بتاریخ ۱۲،۱۳،۱۴ اور ۱۵ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ بمطابق ۲۱،۲۲، ۲۳ اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء بصدارت مولاناسید سلیمان ندوی ایک اجتماع منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں اسلامی دستور کے جو بنیادی اُصول بالاتفاق طے ہوئے، اُنہیں فائدہ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔ اسلامی مملکت کے بنیادی اُصول اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ِذیل اُصول کی تصریح لازمی ہے: 1.اصل حاکم تشریعی و تکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔ 2.ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا، نہ کوئی ایسا