کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 80
ابوالکلام آزاد کے متعلق البتہ اُنہیں کہتے ہوئے سنا گیا کہ ۱۹۱۹ء میں ان کی فکری موت واقع ہو چکی تھی جب وہ گاندھی کے ساتھ متحدہ قومیت کے علمبردار بن کر اُبھرے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اسلامی نظام کے نفاذ کو پاکستان کے معاشی، سماجی اور اخلاقی مسائل کے حل کے لئے ناگزیر سمجھتے تھے۔ وہ ضروری تبدیلیوں کے ساتھ نظامِ خلافت کے قیام کے داعی تھے۔ خدا نے اُنہیں خطابت او رتحریر دونوں کے اعلیٰ اوصاف عطا کیے تھے۔ ان کی تقاریر اور مضامین مردہ دلوں کو گرما دیتی تھیں ۔ ان کی تحریروں میں بھی خطیبانہ اور داعیانہ اُسلوب غالب ہے۔ موضوع کی مناسبت سے الفاظ کے زیر وبم کے استعمال پر اُنہیں قابل رشک دسترس حاصل تھی۔ ان کے لہجے میں وقار ، عظمت اور متانت جھلکتی تھی۔ جب ان کا جسد ِخاکی لحد میں اُتارا جا رہا تھا تو نجانے بار بار بلھے شاہ کا یہ شعر زبان پر کیوں آتا تھا: ع بلھے شاہ اساں مرناں ناہیں ، گور پیا کوئی ہور! علامہ اقبال کے وہ والہ وشیدا تھے۔ وہ بے حد تواتر سے اُن کے اشعار تحریر و تقریر میں استعمال کرتے تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک عظیم اقبال شناس بھی تھے۔ علامہ اقبال کی یہ رباعی اُنہیں بہت پسند تھی: نسیمے از حجاز آید کہ نہ آید سرودِ رفتہ باز آید کہ نہ آید سر آمد روزگارِ ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ نہ آید ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مند اُن کی شخصیت میں اُسی داناے راز کی جھلک دیکھتے تھے۔ اب جبکہ یہ نادرۂ روزگار ہستی بھی اس جہاں میں نہیں رہی تو واقعی بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اب ایسے لوگ کہاں ہیں جنہیں دانائے راز کہہ سکیں ۔ ڈھونڈو گے گلیوں گلیوں سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے انتقال پر نعیم صدیقیؒصاحب نے ’’اک شاہِ بلوط ٹوٹ گرا!‘‘ کے عنوان سے منظوم نوحہ رقم کیا تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان سے درخواست کی جا سکتی تھی کہ اس نظم کے عنوان میں ’اور‘ کا اضافہ کر دیں ۔