کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 5
خاص اہمیت رکھتی ہیں ۔ ترجمانی میں کمی بیشی کے خدشہ کے پیش نظر سعودی دستور کی ان دفعات کا عربی متن بھی ساتھ دیا جارہا ہے۔ مذکورہ بالاچار دستاویزات کے علاوہ حالیہ شمارہ’ محدث‘ میں اس موضوع پر دو معروف قانونی ماہرین کی سفارشات بھی شامل اِشاعت ہیں ۔ان میں سے پہلی سفارش’ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس‘ کی پیش کردہ دستوری ترامیم پر مشتمل ہے جسے جناب محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ کی سربراہی میں ۱۹۸۶ء میں نفاذِ شریعت کی تحریک کی تائید میں حکومت ِوقت کے سامنے پیش کیا گیاتھا۔ محب ِدین قانون دانوں کی یہ سفارشات بھی نفاذِ شریعت کی مساعی میں خاص معنویت کی حامل ہیں ۔ دوسری سفارش جناب جسٹس (ر) خلیل الرحمن خاں کی تجویز کردہ ہے، جنہوں نے ۲۲ نکات کا دستورِ پاکستان سے تقابل کرنے کے بعد یہ قرار دیا ہے کہ پارلیمنٹ کے دینی عزم کے بعد اس ترمیمی خاکہ سے اِستفادہ کی صورت میں ملک و ملت کے لیے قانونی طورپر اسلام کی ڈگر پرچلنے کا راستہ ہموارہوسکتا ہے۔ اگرچہ ادارہ ’محدث‘ Anglo Saxon Lawsکے طریقِ کار کی اُلجھنوں کے علاوہ دستور میں اہم سنجیدہ ترامیم ضروری سمجھتا ہے جن کی طرف آئندہ حواشی میں اشارہ بھی کر دیاگیا ہے۔ تاہم ان دونوں سفارشات کو بالترتیب نمبر۶ اور۷ کے تحت ’محدث‘ میں شائع کیا جارہا ہے۔ ٭ ’محدث‘ میں ان دستوری مطالبوں ، ترامیم اورسفارشات کی اِشاعت سے ایک طرف یہ مقصودہے کہ ملک میں ۱۸ ویں ترمیم کی منظوری کے ساتھ اسلامی شریعت کی طرف پیش قدمی کے اِقدامات بھی پیش نظر رہنے چاہئیں ،کیونکہ اب پاکستان کے مقصدِ وجود اور نظریۂ حیات کوہی طاقِ نسیان میں رکھ دیا گیا ہے جو کسی طور بھی درست نہیں بلکہ اللہ سے کئے گئے وعدوں سے سنگین اِنحراف ہے جس کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔ دوسری طرف ان یادداشتوں کی اشاعت کا مقصد موجودہ حکومت کو ماضی قریب میں صوفی محمد کی ’تحریک نفاذِ شریعت اسلامی‘ کے ساتھ اپنے میثاق کی یاد دہانی ہے جیساکہ شمالی علاقہ جات میں نفاذِ شریعت کے مطالبے کے وقت سے ہی جملہ مکاتب ِفکر پرمشتمل ’ملی شرعی کونسل‘ نے ’متفقہ تعبیر شریعت‘ کے حوالہ سے لائحہ عمل کی تیاری کا کام شروع کردیا تھا تاکہ اگر تحریک نفاذِ شریعت کے صوفی محمد کی بعض غیر حکیمانہ باتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت اپنے معاہدوں سے پس