کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 4
پر حنفی مکتب ِفکر کی چھاپ ہونے کا الزام لگا کر دینی حلقوں نے ہی مخالفت کی تو مدیر اعلیٰ ’محدث‘کی خصوصی کاوشوں سے سینٹ میں پیش کردہ شریعت بل کے اندر کچھ اصلاحات کرکے جملہ مکاتبِ فکر کا ایک متفقہ شریعت بل بھی متعارف کرایا گیاجس کو جامعہ نعیمیہ، لاہور میں منعقدہ ایک عظیم الشان کنونشن میں علما کے ایک بڑے اجتماع کی طرف سے منظور کرکے حکومت سے اس کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیاجس پر بعد اَزاں جامعۃ المنتظر، لاہورکے اَکابرین نے بھی صاد کیا۔ اس طرح متفقہ شریعت بل ۱۹۸۶ء کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ قراردادِ مقاصد اور ۲۲ نکات کی طرح نفاذِ شریعت کے لئے یہ بھی جملہ مکاتب ِفکر کا متفقہ مطالبہ ہے۔ بعد میں ضیا حکومت کے خاتمے پر شریعت بل کے نفاذ کی تحریک مدہم پڑتی گئی، اور آخرکار ۱۹۹۱ء میں نواز شریف حکومت نے ایک غیر مؤثر ’شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء‘ کے نفاذ سے اس عوامی مطالبہ کا اس طرح خاتمہ کردیا کہ اس سے شریعت کے نام کے علاوہ نفاذِ اسلام میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔یہ متفقہ اصلاح شدہ شریعت بل ۱۹۸۶ء بھی زیر نظر اِشاعت میں شامل ہے۔
5.انہی سالوں میں سعودی عرب کی اسلامی حکومت نے اپنا دستور متعارف کرایا۔ یکم مارچ ۱۹۹۲ء میں جاری ہونے والے سعودی عرب کے پہلے دستور نے ملکی دساتیر کی تاریخ میں ایک بیش قیمت دستاویز کا اضافہ کیا۔ انتہائی مختصر مگر جامع الفاظ میں حکومت کے اسلامی فرائض کو اس دستور میں نمٹایا گیا ہے، یعنی ۱۱ صفحات اور محض ۷۰ آرٹیکلز، جن میں اکثر وبیشتر ذیلی شقات بھی شامل نہیں ہیں ۔ ’محدث‘ کے شمارہ جنوری ۱۹۹۳ء میں سعودی عرب کے اس دستور کا مکمل اُردو ترجمہ پہلی بار شائع کیا گیا جسے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے اُستاذ ڈاکٹر حافظ محمد اسحق زاہد نے عربی سے اُردو قالب میں ڈھالا تھا اور معروف ماہر قانون جناب محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اس ترجمہ پر نظر ثانی کی تھی۔
زیر نظر شمارہ میں سعودی دستور کی اسلامی دفعات کا ایک خلاصہ’ جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ کے ایک اور فاضل استاد حافظ عبد الحلیم محمد بلال نے ترتیب دیا ہے۔دراصل یہ انتخاب ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی ضخیم عربی تالیف الإرہاب سے ماخوذ ہے۔ ’محدث‘ میں شائع ہونے والی دیگر دستاویزات کے ہمراہ سعودی عرب کے دستور کی اسلامی دفعات اہل نظر کے لیے