کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 33
پر اَثر نہیں پڑے گا۔
تشریح وتبصرہ:1.،2.اسلام کا نظریہ آفاقی ہے، یہ کسی خاص علاقے یا نسل تک محدود نہیں ہے اس کا روئے سخن تمام دنیا کی طرف ہے، اس لیے اس کے اصول اور قوانین میں بھی آفاقیت پائی جاتی ہے۔ یہ قوانین فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں اور ہر زمانے کے تقاضوں اور تمام قوموں کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ملت ِاسلامیہ کی بنیاد اسلامی نظر یۂ حیات ہے او راس نظریۂ حیات کا منبع قرآن وسنت ہیں ۔ اسی لیے دفعہ ہذا میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام موجودہ قوانین کو قرآن وسنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام کا حوالہ دیا گیا ہے او رایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو قرآن وسنت کے منافی ہو گا۔ اس دفعہ کی شق ۱میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ چونکہ پاکستان کی آبادی میں متعدد ممالک کے لوگ ہیں ، اس لیے کسی مسلم فرقے کے قانون شخصی پر اس شق کا اطلاق کرتے ہوئے عبارت قرآن وسنت سے مذکورہ فرقے کی طے کردہ توضیح کے مطابق قرآن وسنت مراد ہو گی۔
3. شق نمبر ۳ کا حاصل یہ ہے کہ اس حصہ میں کسی امر کا غیر مسلم شہریوں کے قوانین شخصی یا شہریوں کے بطور ان کی حیثیت پر اثر نہیں پڑے گا۔پاکستان میں چونکہ اقلیتیں بھی آباد ہیں لہٰذا اس حصہ میں کسی امر کا غیر مسلم شہریوں کے قوانین شخصی یا شہریوں کے بطور ان کی حیثیت پر اثر نہیں پڑے گا۔ بہ لفظ ِدیگر اقلیتی فرقے کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر سکیں گے اور اس ضمن میں کوئی امر مانع نہ ہو گا۔
دفعہ ہذا احکاماتِ اسلامی کے بارے میں پارلیمنٹ کے اختیارات کی بھی تحدید کرتی ہے۔
نکتہ10:’’غیر مسلم باشندگانِ مملکت کو حدودِ قانون کے اند مذہب وعبادت ، تہذیب و ثقافت او رمذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہو گی اور اُنہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم و رواج کے مطابق کرانے کا حق حاصل ہو گا۔‘‘
دیکھئے دستور پاکستان کا درج ذیل آرٹیکل:
٭ ’’آرٹیکل۲۰:مذہب کی پیروی اور مذہبی اداروں کے انتظام کی آزادی: قانون، امن