کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 24
ساتھ کام اور مناسب روزگار کی سہولتیں بھی مہیا کی جائیں گی اور ایسے شہریوں کو جو قانونی، بیماری یا بے روزگاری کی وجہ سے مستقل یا عارضی طور پر کسب ِمعاش کرنے کے لائق نہ ہوں اُنہیں بنیادی ضروریات زندگی یعنی غذا، لباس، مکان تعلیم اور طبی اِمداد مہیا کی جائے۔
اس دفعہ کے ذریعے اَفراد کی آمدنی اور یافت میں عدم مساوات کو کم کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ نیز ربا یعنی سود کو جلد از جلد ختم کرنے کا عہد کیا گیا ہے، کیونکہ اسلام کسی بھی حالت میں سودی کاروبار کی اجازت نہیں دیتا۔
اس دفعہ کے تحت حکومت کو یہ آئینی تلقین بھی کی گئی ہے کہ وہ عوام کی معاشی او رمعاشرتی فلاح وبہبود کے فروغ کے سلسلے میں سرکاری ادارے قائم کرے یا نجی اور رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے اداروں کی مالی امداد کر کے ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ اس ضمن میں قائم ادارے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں ۔
نکتہ7 و8:’’باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت ِاسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں یعنی حدودِ قانون کے اندر تحفظ ِجان و مال و آبرو ، آزادیٔ مذہب و مسلک، آزادیٔ عبادت،آزادیٔ ذات، آزادیٔ اظہار رائے ، آزادیٔ نقل و حرکت، آزادیٔ اجتماع، آزادیٔ اکتسابِ رزق وترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی اِداروں سے استفادہ کا حق‘‘
بنیادی حقوق کا آرٹیکل ۴ اور آرٹیکل ۸ تا ۲۵ مندرجہ بالا نکات کو سموئے ہوئے ہیں :
٭ ’’آرٹیکل۴: اَفراد کا حق کہ ان سے قانون وغیرہ کے مطابق سلوک کیاجائے:
1.ہر شہری کو خواہ کہیں بھی ہو اور کسی دوسرے شخص کو جو فی الوقت پاکستان میں ہو، یہ ناقابلِ انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔
2.خصوصاً…:
الف) کوئی ایسی کاروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی جان ،آزادی ، جسم، شہرت یا املاک کے لئے مضر ہو ، ما سوائے اس کے جب قانون اس کی اجازت دے۔
ب) کسی کو بھی کوئی ایسا کام کرنے کی ممانعت یا مزاحمت نہ ہوگی جو کام قانوناً ممنوع نہ ہو