کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 22
افریقہ اور لاطینی امریکہ کی مظلوم قوموں کا ساتھ دیا ہے۔ حالیہ واقعات میں افغانستان ، کویت اور نمیبیا کی آزادی شامل ہیں ۔
۱۹۶۹ء میں جب بیت المقدس کو ایک یہودی نے تباہ و برباد کیا تو سعودی عرب کے شاہ فیصل کے تعاون سے اسلامی ممالک کی تنظیم کا قیام اور جنوبی ایشیا کو ایٹم سے پاک رکھنے کی قرار دادوں کی منظوری میں پاکستان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کشمیر کی آزادی کے لئے بھی بین الاقوامی تعاون چاہتا ہے اور اسے لڑائی کی بجائے مذاکرات میں حل کرنے کا خواہاں ہے تاکہ علاقے کا امن برباد نہ ہو۔ اسی طرح افغانستان اور روس کا شیرازہ بکھرنے کے بعد وجود میں آنے والے وسطی ایشیائی ریاستیں پاکستان کے لئے خاص اہمیت رکھتی ہیں ۔ بانی پاکستان بھی اس بات کے خواہاں تھے کہ پاکستان آزاد خارجہ پالیسی کو اپنائے، اس ضمن میں اُنہوں نے فرمایا تھا:
’’ہماری خارجہ پالیسی کا اصل اُصول تمام اقوام عالم کے لئے دوستی اور خیر سگالی کا عملی جذبہ ہے۔ ہم دنیا کے کسی ملک یا قوم کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت اور انصاف کے اُصولوں پر یقین رکھتے ہیں ۔ ہم دنیا میں امن اور خوشحالی کے اضافے اور ترقی کے لئے اپنی جانب سے زیادہ زیادہ کردار انجام دینے کے لئے تیار ہیں ۔‘‘ اور اس کے بعد اُنہوں نے اپنے عملی جذبات کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’پاکستان دنیا کے مظلوم اور کچلی ہوئے اقوام کو اخلاقی اور مادی امداد دینے سے کبھی نہیں ہچکچائے گا اور اقوامِ متحدہ کے منشور میں درج شدہ اُصولوں کا حامل ہے۔‘‘
قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں ، وہ قائد اعظم کے ان ارشادات پر عمل پیرا ہیں ۔ پاکستان کا استحکام ان سب ریاستوں اور ان کے عوام کے لئے ضروری ہے۔
نکتہ6:’’مملکت بلا امتیازِ مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لا بدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن ومعالجہ او رتعلیم کی کفیل ہو گی جو اکتسابِ رزق کے قابل نہ ہوں ، یا نہ رہے ہوں یا عارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی ٔ اکتساب