کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 20
ج) ۲/مارچ۱۹۸۵ء کے صدارتی فرمان میں زکوٰۃ ( عشر) ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کے اہتمام کرنے کو کہا گیا ہے۔ ‘‘ تشریح وتبصرہ: زکوٰۃ اسلام کے بنیادی اور عملی ارکان میں خاص اہمیت کا حامل رکن ہے۔ قرآنِ حکیم کی بے شمار آیات میں زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے۔احادیث میں بھی اس کی بڑی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے مال میں سے ایک مقررہ حصہ ایک معین طریقے سے ہر سال اللہ کی راہ میں دیا جائے۔ زکوٰۃ چار قسم کے اَموال پر فرض ہے: ۱سائمہ جانورں ( وہ جانورجو سال کا اکثر باہر چر کر گزارتے ہیں ) پر ۲ہر قسم کے تجارتی مال پر ۳ سونے چاندی پر ۴کھیتی اور درختوں کی پیداوار پر چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے جس کے ساڑھے باون تولے بنتے ہیں جبکہ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے ہے۔ اگر مال کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے زائد ہو تو سال گزر جانے پر اس کی زکوٰۃ کے طور پر چالیسواں حصہ دینا فرض ہے۔ حکومت ِپاکستان نے اس اہم رکن کو ملک میں نافذ کرنے کے لئے۱۹۸۰ء میں صدارتی آرڈیننس جاری کیا اور اس کی وصولی اور تقسیم کے لئے پورے ملک میں زکوٰۃ و عشر کمیٹیاں قائم کیں ۔ ’نیشنل زکوٰۃ فاؤنڈیشن‘ اس کا اہتمام کرتی ہے۔ اسی طرح کسان اپنی پیداوار کا دسواں حصہ بطورِ عشر ادا کرنے کے پابند ہیں ۔ مزید برآں حکومت نے چاروں صوبوں میں محکمہ اوقاف بھی قائم کر رکھا ہے۔ یہ محکمہ بڑے بڑے مزارات سے ہونے والی آمدنی کو مزارعت پر ہی بروئے کار لاتا ہے اور مزارعین کو سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اس محکمہ کے وجود میں آنے سے متعدد معاشرتی برائیوں کا قلع قمع