کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 18
مسلمان اور عیسائی وغیرہ سب ایک٭ ہوں ۔
۲۷/ رمضان المبارک کو قائد اعظم نے فرمایا:
’’پاکستان کے باشندوں پر زبر دست ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ اُنہیں اب یہ موقع حاصل ہوا ہے کہ دنیا کو یہ ثابت کر دیں کہ کس طرح ایک قوم جس میں مختلف عناصر شامل ہیں ، آپس میں مل جل کر صلح و آشتی کے ساتھ رہتی ہے اور ذات پات کا امتیاز کئے بغیر اپنے تمام شہریوں کی یکساں فلاح وبہبود کے لئے کام کرتی ہیں ۔‘‘
قائد اعظم کے الفاظ کو صرف اسی صورت میں عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے کہ قانون ساز ادارے قانون سازی کر کے علاقائی اور دیگر تعصبات سے پاک معاشرہ قائم کریں ۔
نکتہ4: ’’اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائر ِاسلام کے اِحیا و اِعلا اورمسلمہ اسلامی فرقوں کے لئے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔‘‘
اس نکتہ کے ضمن میں دستور کا آرٹیکل ۳۱بیان کرتا ہے :
٭ ’’آرٹیکل۳۱:اسلامی طرزِ زندگی: ۱) پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی او راجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اُصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لئے اور اُنہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اقدام کیے جائیں جن کی مدد سے وہ قرآنِ پاک اور سنت ِمطہرہ کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں ۔
1.پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل اُمور کی کوشش کرے گی:
الف)قرآ نِ پاک اور اسلامیات کی تعلیم کولازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لئے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح او رمن وعن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔
ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاراور ترقی پابندی کو فروغ دینا اور
ج) زکوٰۃ (عشر) ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا
٭ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : کتاب ’ جناح اسلام کا سفیر ‘ از محمد متین خالد میں تفصیلی مضمون بعنوان ’ قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی اصلی تعبیر از محمد عطاء اللہ صدیقی