کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 17
اس سلسلہ میں قانون سازی کی اتنی ضرورت نہیں جتنی کہ حکومت کے سیاسی عزم (Political Will)کی ضرورت ہے۔سیاسی عزم کے لئے مقتدر اشخاص اور اداروں کا اسلامی ذہن (Mindset) کا حامل ہونا ضروری ہے۔[1] نکتہ3: ’’مملکت جغرافیائی، نسلی یا کسی اور تصور کی بجائے ان اُصول ومقاصد پر مبنی ہو گی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔‘‘ یہ نکتہ درج ذیل مقامات پر دستور میں شامل کیا گیا ہے: ٭ تمہید(Preamble) اور آرٹیکل ۲/الف قراردادِ مقاصد(۱۹۴۹ئ) دستورپاکستان اسلام کو ضابطہ حیات کی اساس او ربنیاد بتلاتا ہے۔ ٭ دستور کا آرٹیکل۳۳ مزید قرار دیتا ہے کہ ’’مملکت شہریوں کے درمیان علاقائی ، نسلی، قبائلی، فرقہ وارانہ او رصوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ وضاحت: اسلام تنگ نظری پر مبنی قوم پرستی، علاقائیت اور نسلی امتیاز کا سخت مخالف ہے۔ اور پاکستان کی بنیاد اسلامی نظریات پر ہے۔‘‘ تشریح و تبصرہ: اسلام نے اپنے عروج کے ایک ہزار سال سے زیادہ طویل دور میں مختلف فرقوں اور گروہوں کے درمیان صلح و آشتی کا جو نمونہ پیش کیا، وہ موجودہ دور میں دنیا کے بعض حصوں میں نسلی برتری کے بے جا دعوے، تعصب اور ظلم سے بالکل مختلف تھا۔پاکستان چونکہ ایک اسلامی ملک ہے اور اس کی بنیاد بھی اسلامی نظریے پر رکھی گئی ہے، ا س اعتبار سے پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ باہم بھائی ہیں ۔اس لیے اگر علاقائیت اور دیگر مماثل تعصبات کو ہوا دی گئی تو پھر نظریۂ پاکستان کمزور پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا نظریۂ پاکستان کی تقویت کے لئے ضروری ہے کہ مذہب، زبان، علاقائیت اور ثقافت کو بنیاد بنا کر ان عوامل کی حوصلہ شکنی کی جائے جیسا کہ قائد اعظم نے ۱۱/اگست۱۹۴۷ء کو پاکستان میں مجلس دستور ساز میں ایک ایسی پاکستانی قومیت کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا جو و طنیت پر مبنی ہو اورجس میں پاکستان کے ہندو،
[1] اسلام کے بنیادی حقوق جو کتاب وسنت سے ہی ماخوذ ہوتے ہیں ( جن میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کے طور پر ہی کتاب وسنت ’ شریعت ‘ کی پابندی لازمی ہے ) کی طرح اگر کتاب وسنت کودستوری حیثیت سے لاگو کر دیا جاتا تو پھر بتدریج اسلام کی طرف کوئی پیش رفت ممکن تھی ۔