کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 16
کے مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصہ میں بطور اسلامی اَحکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکے گا جو مذکورہ اَحکام کے منافی ہو۔‘‘[1]
تشریح وتبصرہ:’انتظامی حکم‘: ہر انتظامی حکم کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر جاری ہو تا ہے۔ ہر قانون کاکتاب وسنت کے مطابق ہونا ضروری ہے،کیونکہ اگر وہ قانون قرآن وسنت کے خلاف ہے تو وہ وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ہر انتظامی حکم کو قانون کے خلاف یا ماورا ہونے کی وجہ سے یا بنیادی حقوق سے تصادم کی صورت میں عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ پہلے سے موجود قوانین آرٹیکل ۲۷۷کی رو سے قرآن وسنت کے مطابق ڈھالے جائیں گے۔ وفاقی شرعی عدالت تقریباً تمام قوانین کا جائزہ لیتی ہے، ما سوائے چند قوانین کے جنہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ [2]
[1] (الف ) 1973ء کے دستور میں صدارتی حکم 14 ، 1985ء کی ترمیم شمارہ ہذا ، ص 2 کے باوجود جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سات رکنی سپریم کورٹ کا فل بنچ یہ تشریح کر چکا ہے کہ دستور کی دفعہ 2 (A) دیگر تمام دستور کی دفعات پر بالادست نہیں ہے لہذا اس کی موجودگی میں دیگر تمام اپنی اپنی دستوری قوت سے مؤثر رہیں گے ۔ (خواہ وہ اسلام کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں ؟)
( ب ) دفعہ 227 میں ہی یہ وضاحت موجود ہے کہ ( 1) عبارت ’ کتاب و سنت ‘ سے مراد شخصی قوانین کی حدتک مذکورہ فرقہ کی کتاب وسنت اور اس کی تشریح ہو گی ۔
(2) دفعہ ہذا کے احکام کو صرف اس طریقہکے مطابق لاگو کیا جائے گا جو اس حصہ میں منضبطہے ۔
نکتہ اعتراض : یہ ہے کہ دفعہ 227 کے نفاذ کا طریق کار یہی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت وغیرہ کی تشکیل کر کے بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے اسے لاگو کیا جائے ۔ جب کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی دستوری حیثیت یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ وغیرہ کو صرف مشورہ دے سکتی ہے جس کے مشورہ کی پارلیمنٹ پابند نہیں ہے اور نہ ہی ایسے مشوروں پر غور وفکرکے لیے کوئی حتمی مدت متعین ہے پھر پارلیمنٹ کے ارکان کی اہلیت ایک بڑا مسئلہ ہے ۔وغیرہ ! ( 1951ء سے لے کر 2010ء تقریباً ساٹھ سال ہماری تدریجی مساعی کے شاہد ہیں )
[2] جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جو وفاقی شرعی عدالت وغیرہ بنائی گئیں ان کے دائرہ اختیار اور ضابطہ کار سے قانون کی تعریف کرتے ہوئے بنیادی دستور ، مسلم پرسنل لاز، کسی عدالت یا ٹربیونل کا ضابطہ کار وغیرہ کو(203ب ) کے ذریعے کو نکال دیا گیا ۔ آرٹیکل 203 کی تفصیلی شقات پر تبصرہ کی اس حاشیہ میں گنجائش نہیں ہے ۔