کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 15
پیش کیا گیا ہے۔ یہی اُسلوب تمام ۲۲/نکات کے سلسلے میں اختیار کیا گیا ہے۔ تجزیہ وتقابل کے آخر میں فی الوقت درکار تجاویز و ترامیم کی نشاندہی کی گئی ہے جن کا مطالبہ ’ملی مجلس شرعی‘ کے علما کو اس وقت حکومت ِوقت سے کرنا چاہئے۔ [ان ترامیم کو نمبر کے تحت ص نمبر۵۴ پر ملاحظہ فرمائیے]
۳۱علماے کرام کے ۲۲ نکات اور دستورِپاکستان۱۹۷۳ء
نکتہ 1:’’ اصل حاکم شریعت وتکوینی حیثیت سے اللہ ربّ العالمین ہے۔‘‘
٭ یہ اُصول دستور کی تمہید اور آرٹیکل۲/اور۲/الف میں شامل ہے۔ تمہید(Preamble) اور آرٹیکل ۲/الف کے ذریعہ قرار دادِ مقاصدObjectives Resolution (۱۹۴۹ء) کودستور میں شامل کر کے اللہ ربّ العالمین کو تشریعی اور تکوینی حیثیت سے حاکمِ مطلق تسلیم کر لیا گیا ہے۔
٭ جب کہ آرٹیکل ۲کے مطابق ’’اسلام، مملکت پاکستان کا مذہب ہے۔‘‘
نکتہ2: ’’ملک کا قانون کتاب وسنت پر مبنی ہو گا اور کوئی ایسا قانون نہ بنا یا جا سکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔[1]
تشریحی نوٹ:اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیئے جائیں گے۔‘‘
یہ نکتہ دستور پاکستان کی درج ذیل دفعہ میں شامل کیا جاچکا ہے:
٭ آرٹیکل ۲۲۷: ’’تمام موجودہ قوانین کو قر آنِ پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام
[1] علما نے جوزبان استعمال کی ہے اگرچہ وہ سادہ ہے جسے دستور و قانون کی زبان میں اسی طرح زور دار بنایا جاسکتا ہے جس طرح سعودی عرب کے دستور کی دفعات 1، 7، 8 اور 46 وغیرہ ہیں ۔ ( دیکھیے : شمارہ ہذا ، ص 44 ) تاہم ان سادہ الفاظ کا مفہوم درج ذیل ہے :
الف ) کتاب و سنت خود قانونی اور دستوری حیثیت رکھتی ہے ۔
ب ) دستور قانون کلی یا جزوی حیثیت سے کتاب وسنت کے مطابق ہونا ضروری ہے ۔
ج ) کوئی انتظامی حکم بھی ایسا نہیں دیا جاسکتا ، جوکتاب وسنت کے خلاف ہو ۔
د ) علما نے محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت اور آگے بڑھو ! کا اندازاختیار کیا ہے کہ مروجہ دستورو قانون کوبتدریج کتاب وسنت کے مطابق بنا دیا جائے گا جس کی ایک مدت متعین کر دی جائے ۔