کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 11
کوئی سزا نہ دی جائے گی۔ 9.مسلّمہ اسلامی فرقوں کو حدود ِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انہیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کرسکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انہیں کے قاضی یہ فیصلہ کریں ۔ 10.غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود ِ قانون کے اندر مذہب و عبادت، تہذیب وثقافت اورمذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کافیصلہ اپنے مذہبی قانون یارسم و رواج کے مطابق کرانے کا حق حاصل ہوگا۔ 11.غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدودِ شریعہ کے اندر جو معاہدات کئے گئے ہوں ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کاذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگانِ ملک اور مسلم باشندگانِ ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔ 12.رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت ِرائے پر ان کے جمہوری منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔ 13.رئیس مملکت ہی نظم ِ مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا۔ البتہ وہ اپنے خیالات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کرسکتا ہے۔ 14. رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی یعنی وہ ارکان ِ حکومت اور منتخب نمائندگان ِ جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔ 15.رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کو کُلاً یا جزواً معطل کرکے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔ 16.جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی وہی کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔ 17.رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔