کتاب: محدث شمارہ 337 - صفحہ 10
انتظامی حکم دیا جاسکے گا، جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔ (تشریحی نوٹ) اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب و سنت کے خلاف ہو تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کردیئے جائیں گے۔ 3.مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اُصول و مقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطۂ حیات ہے۔ 4.اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرکے منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیاء و اعلاء اور مسلّمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کاانتظام کرے۔ 5.اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگاکہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد و اخوّت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پرنسلی و لسانی علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کا انتظام کرے۔ 6.مملکت بلاامتیاز مذہب و نسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں ، یا نہ رہے ہوں یاعارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یادوسرے وجوہ سے فی الحال سعئ اکتساب پر قادر نہ ہوں ۔ 7.باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کئے ہیں ۔ یعنی حدود ِقانون کے اندر تحفط جان و مال و آبرو، آزادی مذہب و مسلک، آزادی عبادت ، آزادی ذات، آزادی اظہاررائے، آزادی نقل و حرکت، آزادی اجتماع، آزادی اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔ 8.مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند ِجواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمئ موقعۂ صفائی وفیصلہ عدالت