کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 9
ایمان و عقائد محمد عمران صدیقی ’مساوات‘ یا ’عدل‘ ؛ شرعی نقطہ نظر ہرتہذیب و نظریہ جہاں مختلف اَہداف ومقاصدکا حامل ہوتا ہے، وہاں ان مقاصد کے لئے اپنے نعروں اور لائحۂ عمل کو خوشنما اور دیدہ زیب نام بھی دیتا ہے۔ ان اصطلاحات اور نعروں میں ظاہری اشتراک کے باوجود دونوں کے مفہوم ومدعا اور معنویت میں وہ فرق پوری تاثیر سے موجود ہوتا ہے جو ہر دو نظریات میں درحقیقت پایا جاتا ہے۔ ظاہربین حضرات اصطلاحات کے ظاہری اشتراک سے دھوکہ کر، دو مختلف علمیت اورپس منظر کی حامل اصطلاحات کو ایک دوسرے کی جگہ بولنے کی غلطی کربیٹھتے ہیں ، اس سے نتائج میں بھی شدید اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ انہی اصطلاحات میں ایک مساوات بھی ہے جو ’عدل‘ کے بجائے استعمال کی جاتی ہے۔ مساوات کے مغرب سے درآمدہ تصورات تو غلط ہیں جس کی نشاندہی زیر نظر مضمون میں کی گئی ہے لیکن اسلام کا اپنا تصورِ مساوات بھی ہے جیسا کہ تمام مسلمانوں میں انسان ہونے کے ناطے مساوات پائی جاتی ہے، کالے گورے اور عربی وعجمی میں کوئی امتیاز موجود نہیں ہے۔ شریعت کے مخاطب ہونے اور اللہ کی بندگی بجا لانے کے لحا ظ سے بھی مساوات ہے، بقولِ شاعر: ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز، نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔ زیر نظر مضمون میں مساوات کی ان مقامات پر نفی کی گئی ہے جہاں شرعی احکام کے بالمقابل ’مساوات‘ کا لفظ بول کر من چاہے مقاصد پورے کئے جاتے ہیں ۔اس لحاظ سے مساوات اسلام کی کوئی مستند تعبیر نہیں ، بلکہ احکام شریعت ہی دائمی اور حقیقی برتری رکھتے ہیں جس کے لئے ’عدل‘ کی اصطلاح مناسب اور شرعی ہے۔ ح م ’جاہلیت ِجدیدہ ‘ کی بنیادی اقدار میں ’آزادی‘ کے بعد ’مساوات‘ کا نام لیا جاتا ہے۔ سننے کی حد تک یہ ایک خوبصورت لفظ اور دل لگتی اصطلاح ہے۔ یعنی ’برابری‘ اور ’ تسویہ‘ لیکن اپنی اصلیت اور حقیقت میں اسلام کی بنیادی قدر ’عدل‘ کی نفی ہے اور فرقِ مراتب کی ضد ہے ۔ مسلمانوں کے بعض مفکرین اور دانشور جو ’جاہلیت‘ ہی کے خوشہ چیں بن کر رہ گئے ہیں ، اس مغربی قدر کو مغربی جانتے ہوئے بھی مسلمانوں کے سر تھوپنا چاہتے ہیں ؛ مگر کئی سادہ لوح ’مساوات‘ کو’ اسلامی قدر‘ کے طور پر جانتے ہیں اور اسی حیثیت سے منوانا چاہتے ہیں ۔ ’مساوات‘ (Equility) تمام انسانوں کی برابری کا تصور دیتی ہے۔ انسانوں کو معاشی ، سیاسی، سماجی، مذہبی، فکری اور صنفی ہر اعتبار سے برابری کا تصور اور اس کا انسان کے بنیادی حق