کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 80
کردی تو بہت خوش ہوئے اور اُنہیں دعائیں دیں ۔اس کے بعد محمدی صاحب نے مولانا جانباز سے آٹو گراف لیا، مولانا جانباز نے اپنے بھتیجے حافظ عبدالرحمن سے فرمایا کہ
’’انجاز الحاجہ کا مکمل سیٹ (۱۲ جلد) اور دوسری میری جو تصانیف اس وقت موجود ہیں ، مولانا عارف صاحب کو دی جائیں ۔‘‘
چنانچہ حافظ عبدالرحمن صاحب إنجاز الحاجۃ کا مکمل سیٹ اور دوسری تصانیف اندازاً آٹھ عدد مولانا عارف کولا کردیں اور إنجاز الحاجۃکی پہلی جلد پر اپنے دستخط بھی کئے۔
۵ دسمبر ۲۰۰۸ء کو راقم دوبارہ عیادت کے لیے گیا۔پروفیسر عبدالعظیم صاحب نے ملاقات کرائی اور اُنہوں نے سہارا دے کربٹھایا۔دیکھتے رہے، لیکن گفتگو نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے بعد روزانہ ٹیلی فون پر خیریت دریافت کرتا رہا، لیکن تسلی بخش جواب نہیں ملتاتھا اور یہی اندازہ ہوتا تھا کہ کسی وقت یہ شمع گل ہوجائے گی۔
ہفتہ کی رات گیارہ بجے حافظ عبدالرحمن صاحب کاٹیلی فون آیا۔ میں سویاہوا تھا، میرے بیٹے نے ٹیلی فون سنا۔حافظ صاحب نے مولانا جانباز کی وفات کی اطلاع دی اور دو بجے دوپہر جنازہ کی نماز کاذکر کیا۔ مجھے میرے بیٹے نے صبح نمازِ فجر کے بعد بتایا۔إنا ﷲ وإنا الیہ راجعون پڑھا۔ میں اپنے ایک دوست مولانا عبدالعزیز سیال کے ہمراہ تقریباً ۱۲ بجے جامعہ رحمانیہ پہنچ گیا۔اس وقت مولانا کو غسل دیا جارہا تھا۔
مولانا کے صاحبزادگان عبدالحلیم اور عبدالعظیم صاحبان اور بھتیجے حافظ عبدالرحمن صاحب اور مولانا مرحوم کے دیرینہ رفیق مولانا عطاء الرحمن اشرف سے ملے، تعزیت کی۔ اس کے بعد نمازِ ظہر ادا کرنے کے بعد پولیس گراؤنڈ (جہاں نماز جنازہ ادا ہونی تھی) جنازہ کے ہمراہ گیا۔ گراؤنڈ میں ایک جم غفیر تھا۔ راقم نے اپنے ساتھی مولانا عبدالعزیز سیال سے دریافت کیا کہ آدمیوں کی تعداد کتنی ہوگی؟ تو اُنہوں نے بتایا کہ دس ہزار کے قریب ہوں گے۔
مولاناجانباز کی وصیت کے مطابق نمازِجنازہ پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی برادرِ اصغر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ نے پڑھائی اور قبرستان حسین شاہ میں دفن ہوئے۔اللہم اغفرہ وارحمہ واجعل مثواہ الجنۃ الفردوس!