کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 8
کی ابتر صورتِ حال سب کے سامنے ہے، ان حالات میں غیر ملکی مشیرانِ گرامی قدر کی تخریبی سرگرمیوں کو ملک میں پذیرائی حاصل ہوجانا انتہائی افسوسناک ہے۔ اُنہیں شاید یہ غلط فہمی ہے کہ قوم اور اربابِ حکومت کو اپنی اپنی پڑی ہے، ملک میں ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ اس نازک موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ تعلیم کے ارباب بست و کشاد سے خاطر خواہ فیصلے نافذ کروا لیں گے۔
اس موقع پر بڑی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی بقا، سلامتی، ترقی، خوشحالی اور استحکام سب کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم اپنی نسل نو کو اُجڑنے سے بچالیں ۔ ان کی صلاحیتوں کو اپنی قومی زبان کے ذریعے محفوظ کرلیں ، انگریزی کی بالادستی سے ان کو بچالیں ۔ تحریک نفاذِ اُردو وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ مسلمان کسی غیر ملکی زبان کی تدریس کا مخالف نہیں ہے۔مگر انگریزی زبان جس جارحانہ انداز میں پاکستان کو غلام بنا رہی ہے، ہم یہ بات قطعاً برداشت نہیں کرسکتے۔ اپنی قومی زبان کی قیمت پر اور اپنے بچوں کی صلاحیتوں کے زیاں پر ہم راضی ہوجائیں ۔ہماری گذارش یہی ہے انگریزی زبان کو ایک اختیاری مضمون کے طو رپر بیشک پڑھایا جائے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ مگر اس کو میٹرک اور دیگر اعلیٰ تعلیم میں لازمی قرار دینا یہ ہمارے لیے بہت نقصان دہ ہے اور اب ابتدائی کلاسوں سے تعلیم کو انگریزی میڈیم بنا دینا؟کوئی زندہ قوم بقائمی ہوش و حواس ایسا فیصلہ کبھی نہیں کرسکتی اوراپنی تعلیمی موت کے پروانے پر دستخط نہیں کرسکتی۔
ہم اربابِ بست و کشاد سے اور خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ ایسا نوٹیفیکیشن فی الفور واپس لے لیں اور اپنی نسل نو اورپاکستان کے مستقبل معماروں کو تباہ و برباد ہونے سے بچانے میں اپنا فرض ادا کریں ۔ ( پروفیسر ثریا بتول علوی)