کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 79
علالت اور وفات مولانا جانباز ۲۰۰۷ء کے شروع سے ہی علیل چلے آرہے تھے، لیکن علاج سے اُنہیں خاص افاقہ ہوگیاتھا۔جامعہ رحمانیہ میں باقاعدہ آناشروع کردیا اور تدریس کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا۔رمضان ۱۴۲۹ھ شروع ہوا تو مولانا نے روزے رکھنا شروع کردیئے۔ صرف گیارہ روزے رکھے تو دوبارہ بیماری کا حملہ ہوا۔ پہلے سیالکوٹ ہسپتال میں زیرعلاج رہے، بعد میں لاہور ہسپتال میں بھی داخل کرا دیئے گئے، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی چنانچہ مولاناکو سیالکوٹ واپس لایا گیا۔دوائیاں استعمال کرتے رہے، لیکن کمزوری میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ راقم مولانا کی وفات سے تین ہفتہ قبل عیادت کے لیے حاضر ہوا۔اتفاق سے مولانا عارف جاوید محمدی(کویت) بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔مولانا کے صاحبزادے پروفیسر عبدالعظیم نے تکیہ کے سہارا سے بٹھایا تو مولاناعارف جاوید اور راقم سے مصافحہ کیا اور خیریت دریافت کی۔راقم نے عرض کیا کہ آپ کو یہ تکلیف روزوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ فرمایا: صرف گیارہ روزے رکھے تھے۔ اسکے بعدجناب عارف جاویدصاحب سے فرمایا کہ میں مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی کی کتاب ’خیر المامون‘ (جودو جلدوں میں ہے) چھپوانا چاہتا ہوں ۔ اس کی دوسری جلد میں نے کمپوز کرالی ہے اور پہلی جلد مجھے نہیں مل رہی۔مجھے کہیں سے اصل کتاب یا اس کی فوٹو کاپی مہیاکرا دیں تاکہ میں دونوں جلدیں اکٹھی شائع کرسکوں ۔ مولانا عارف جاوید محمدی صاحب نے فرمایا کہ ’’مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامبارکپوری کے ۹/ رسائل اکٹھے ایک جلد میں شائع کررہے ہیں ، جس میں ’خیر المامون‘ بھی شامل ہے۔‘‘ مولانااثری صاحب بے شک شائع کریں مگر میں بھی یہ رسالہ ضرور شائع کروں گا۔مولانا عارف جاوید صاحب نے اسی وقت بیگ سے سی ڈی CD نکال کر مولانا جانباز کے حوالے