کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 77
احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نے بڑی جامع و علمی تقریر ارشاد فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مدرسہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب اس مدرسہ کا نام بعض وجوہ کی بنا پر جامعہ ابراہیمیہ کی بجائے ’جامعہ رحمانیہ‘ ہوگیا ہے ۔
فطری مواہب اور ذاتی خصوصیات
اخلاق وعادات کے اعتبار سے مولانا جانباز نہایت پاکیزہ انسان تھے۔عزت، شرافت، قناعت اور وجاہت ان کی سیرت کا جوہر خاص تھی۔ زہد و ورع، تقویٰ و مہارت اور شمائل و اخلاق میں سلف صالحین اور علمائے ربانیین کے اوصاف کے حامل تھے۔ اتباعِ سنت میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔
مولانا جانباز قدرت کی طرف سے بڑا اچھا دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ روشن فکر، دردمند دل اور سلجھا ہوا دماغ پایاتھا۔ ذہانت و ذکاوت کے ساتھ غیر معمولی حافظہ کی نعمت سے اللہ تعالیٰ نے سرفراز فرمایاتھا۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایۂ علم تھا۔ علمی و دینی مسائل کی تحقیق میں ان کویدطولیٰ حاصل تھا اورتاریخ پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم، حافظ ابن حجر،امام شوکانی اورمولانا سید نواب صدیق حسن خان رحمہم اللہ اجمعین کی تصانیف کے شیدائی تھے۔ علمائے اہلحدیث میں مولانا شمس الحق ڈیانوی، مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری، شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی، حضرت العلام مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف اور مولانا محمد حنیف ندوی رحمہم اللہ اجمعین سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ان علمائے کرام کی دینی و علمی اور قومی و ملّی خدمات کے بہت زیادہ معترف تھے۔اپنے اساتذہ میں حضرت العلام محدث گوندلوی رحمہ اللہ اور مولانا ابوالبرکات احمد رحمہ اللہ کے علم و فضل کے بہت زیادہ معترف تھے اور ان ہر دو علمائے کرام کا تذکرہ بڑی عقیدت اور محبت سے کیا کرتے تھے۔
دورِ حاضر کے علما میں مولاناارشاد الحق اثری، مولانا محمداسحق بھٹی، مولانا حافظ صلاح