کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 74
عالمانہ تہذیب و شائستگی کی ایک فلک بوس عمارت آپ کے انتقال سے زمین پر آرہی جو بڑی دلکش، بڑی بلند اور قابل حفاظت تھی۔ان کی رحلت سے اُمت اسلامیہ ایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے ؎
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
مولدومسکن
شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز ۱۹۲۴ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع فیروزپور کے قصبہ چک بدھر میں پیدا ہوئے، والد کا نام حاجی نظام الدین اور راجپوت وٹو برادری سے تعلق تھا۔
ابتدائی تعلیم
اپنے قصبہ میں ہی تعلیم کا آغاز قرآنِ مجید سے کیا۔ قرآنِ مجید میں آپ کے استاد مولانا محمدتھے جو دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے فارغ التحصیل تھے۔ قرآن مجید کے علاوہ ابتدائی دینی کتابیں بھی مولانا محمد سے پڑھیں ۔ اس کے بعد مولانا محمد کی ترغیب سے آپ مدرسہ راجووال تشریف لائے، جہاں آپ تین ماہ زیر تعلیم رہے۔
۱۹۵۱ء میں مولانا جانباز صوفی محمد عبداللہ وزیرآبادی رحمہ اللہ کے مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ میں داخل ہوگئے اور اس مدرسہ میں آپ نے دو سال تک تعلیم حاصل کی۔ اوڈانوالہ میں آپ کے اساتذہ مولانا محمد صادق خلیل اور مولانا پیر محمد یعقوب قریشی تھے۔
۱۹۵۲ء میں آپ وزیرآباد تشریف لائے اور دارالحدیث میں مولانا عبداللہ مظفرگڑھی سے علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا۔ اس کے ساتھ آپ مولانا محمدرمضان سندھی جن کا تعلق دیوبندی مکتب ِفکر سے تھا اور جامع مسجد حنفیہ مین بازار وزیرآباد میں خطیب تھے،اُن سے مقاماتِ حریری اور شرح تہذیب کا درس لیا۔
۱۹۵۲ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی، علمائے کرام حکومت کے خلاف تقریریں کرتے تھے اور اپنی گرفتاریاں پیش کرتے تھے۔چنانچہ آپ کوبھی گرفتار کرلیاگیا، لیکن چھ گھنٹے