کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 73
مولانا جانباز قحط الرجال کے اس دور میں عام مسلمانوں کے لیے اور خاص کرجماعت اہلحدیث کے لیے گوہر شب چراغ اور اللہ تعالیٰ کی نشانی تھے۔ ان کی رحلت سے طبقہ علما میں جو خلاپیدا ہوا ہے، اس کا پُر ہونا مشکل ہی نہیں ، ناممکن نظر آتا ہے۔مولانا جانباز جیسی نابغہ ٔروزگار اور نادر ہستیاں روزروز پیدا نہیں ہوتیں جو کتاب و سنت کی اشاعت اور فروغ میں دیوانہ وار مصروف ہوں ؎
اب نہ آئے گا نظر ایسا کمالِ علم و فن
گو بہت آئیں گے دنیا میں رجال علم و فن
مولانا محمد علی جانباز انتہائی منکسر مزاج، دوراندیش اور تعمیری ومثبت فکر رکھنے والے انسان تھے۔ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ جامعہ رحمانیہ (سابقہ جامعہ ابراہیمیہ) کا قیام ہے جس نے ملک کو سنجیدہ ، اچھے لکھنے والے اور خطیب حضرات دیئے۔
مولانا محمد علی جانباز کی رحلت موت العالِم موت العالَم کی مصداق ہے۔ وہ بیک وقت ایک عالم دین بھی تھے، مدرّس بھی تھے اور مفتی بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فہم وبصیرت سے نوازا تھااور فن تحریر کے ساتھ خطابت کی صلاحیت بھی دی تھی۔ آپ اخلاق و شرافت کا مجسمہ اور علم و حلم کے پیکر تھے۔ بڑے متواضع، زاہد و عابد اور مرتاض تھے۔ اتباعِ سنت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ بڑے خوددار اور صابر و شاکر تھے۔ جاہ و ریاست کی کبھی خواہش نہیں کی،بہت خلیق اور ملنسار تھے۔ میرااُن سے ۱۹۸۰ء سے ذاتی تعلق تھا۔ہرماہ دو ماہ بعدان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔بڑی محبت اور شفقت سے ملتے اور مہمان نوازی میں کوئی کسر اٹھانہ رکھتے۔
مولانا جانباز کی شخصیت اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ صفت ہے۔ جس کی مثال شاید اس زمانے میں ناپید ہے۔ آپ ایک شب ِزندہ دار بزرگ بھی تھے اور عالم ربانی بھی، اوربے مثال اہل قلم بھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی دینی فہم بھی عطا کی تھی اور دنیاوی شعور بھی۔ آپ پاکیزہ اخلاق کا مجسمہ تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے کردار میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اتباع کی پوری جھلک دکھائی دیتی تھی۔ مولانا جانباز کی ذاتِ گرامی قدیم روایاتِ صالحہ کی قیمتی یادگار تھی۔