کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 72
یادِ رفتگاں عبدالرشید عراقی
ایک مثالی عالم ؛شیخ الحدیث مولانا محمدعلی جانباز رحمہ اللہ
پروفیسر رشیداحمد صدیقی اپنی کتاب ’گنج ہائے گراں مایہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’موت سے کسی کو مفر نہیں ، لیکن جو لوگ ملی مقاصد کی تائید وحصول میں تادمِ آخر کام کرتے رہتے ہیں ، وہ کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ پائیں ، ان کی وفات قبل از وقت اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔‘‘
شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ پر یہ جملہ مکمل طور پر صادق آتاہے جو ۱۳/ دسمبر۲۰۰۸ء مطابق ۱۴/ذی الحجہ ۱۴۲۹ھ بروز ہفتہ رات آٹھ بجے سیالکوٹ میں اس دنیاے فانی سے رحلت فرماگئے۔ إنا ﷲ وإنا الیہ راجعون!
مولاناجانباز رحمہ اللہ نے اپنی ساری زندگی دینِ اسلام کی نشرواشاعت،کتاب و سنت کی ترقی وترویج اور حفاظت، شرک و بدعت و محدثات کی تردید و توبیخ اور ادیانِ باطلہ کے ردّ میں وقف کردی تھی۔مولانا جانباز رحمہ اللہ علوم اسلامیہ کے بحرذخار تھے۔ وہ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی، مؤرخ بھی تھے اور محقق بھی، مصنف بھی تھے اور صحافی بھی، دانشور بھی تھے اور نقاد بھی، ادیب بھی تھے اور مبصر بھی، معلّم بھی تھے اور متکلّم بھی، مقرر بھی تھے اور واعظ بھی، اور سب سے بڑھ کر آپ اہل حدیث کے نامو رمفتی بھی تھے۔
مولانا جانباز مرحوم اسلامی تاریخ کے اُن علمائے سلف کی ایک زندہ یادگار تھے جو مسلمانوں کے عروج و زوال کے رموز سے آگاہ ہوچکے تھے۔مولانا جانبازپاکستان کے ان چند منتخب اور مختص علماء میں شامل تھے جنہیں علومِ اسلامیہ پر رسوخ حاصل تھا اور میں اس بات کی شہادت دیتاہوں کہ مولانا کو تفسیر، حدیث، تاریخ، اسماء الرجال اور فقہ میں جو عبورِ کامل تھا، شاید کسی اور عالم کو اتنا درک حاصل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حمیت ِ دینی کا جو جوہر عطا فرمایا تھا، وہ بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ مولانا دینی غیرت و حمیت سے مالامال تھے۔