کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 7
اُردو زبان کی انہی خوبیوں کے پیش نظر خود ہندوستان میں کئی یونیورسٹیوں میں ڈگری کی سطح پر اُردو میڈیم کی سہولت موجود ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد نے تو ابتدا ہی سے اُردو زبان کو ذریعہ تدریس قرار دے رکھا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی اور کئی دیگر یونیورسٹیوں میں اُردو زبان کو ذریعہ تدریس قرار دیا گیا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ہندوؤں کے تعصب کے باوجود وہ اُردو زبان کی ذاتی خصوصیت کے پیش نظر اس کو ذریعہ تعلیم قرار دینے پر مجبور ہیں ۔ تو پھر ہمیں سوچنا پڑے گا کہ اُردو جو ہمارا قومی ورثہ ہے، جسے بانیانِ پاکستان نے پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا،جو زبان ہماری دینی و تہذیبی روایات کی امین ہے، جسے پاکستان کے ہر حصے میں ہر بڑا چھوٹا اور بچہ تک جانتا ہے، اس کو ہم کیوں نظر انداز کررہے ہیں ؟ کیا محض انگریز آقاؤں کی چاکری کے لئے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں جس دن پاکستانی قوم نے انگریزی زبان کا طو ق گلے سے اتار دیا، اُسی دن وہ صحیح معنوں میں ہم سے آزاد ہوجائے گی اور حیرت یہ ہے کہ ہم خود بھی یہ سب کچھ جانتے ہیں ۔ پھر کیوں ہمارے دانشور طبقے بھی اس غلامی کے طوق کو اپنے ہاں جاری وساری رکھنے پر مصر ہیں ۔ یہ افسوس اس وقت دوچند ہو جاتا ہے جب ماہرین تعلیم جنہیں فروغِ تعلیم کے سلسلے میں اَساسی قدروں کی آبیاری کے لیے سرگرم عمل ہونا چاہیے۔اپنے تحت چلنے والے سکولوں اور اداروں میں انگریزی ہی کو ذریعہ تعلیم بناتے اورCo-educationکو ترقی کاپہلا زینہ قرار دیتے نظر آتے ہیں حالانکہ یہ انہی کی ذمہ داری تھی کہ وہ لڑکے/لڑکیوں کے لیے الگ الگ کیمپس بناتے،لیکن مرعوبیت کا شکار یہ طبقہ بھی اسی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے اور پھر یہ افسوس مایوسی میں اس وقت بدلتا نظر آتا ہے جب ہم دینی ومذہبی جماعتوں کی سرپرستی میں چلنے والے سکولوں اور اِداروں میں انگریزی کا جنون غالب آنا دیکھتے ہیں ،حالانکہ یہی لوگ اور جماعتیں ہی ہیں جو دین وملت کی اَساسات کی پاسبان سمجھی جاتی ہیں ۔ بہرحال سوچنے کا مقام ہے کہ اتنے بڑے فیصلے کے لیے کیا پوری قوم کو اعتماد میں لیاگیا ہے؟ کیا عوامی نمائندوں سے صلاح مشورہ ہوا ہے؟ کیا ماہرین تعلیم کی رائے لی گئی ہے؟ ملک