کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 6
ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان میں اس کے نفاذ میں کیوں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں ۔ حالانکہ اگر ہمارے ہاں انگریزی لازمی کی پابندی ختم کردی جائے تو ہمارے ہاں ایک دم شرح خواندگی کا تناسب بہت زیادہ بڑھ جائے اور قوم کی صلاحیتیں تیزی سے نشوونما پانے لگیں ۔ اس وقت تو انگریزی زبان نے ہماری قومی صلاحیتوں کی نشوونما پر ایک بہت بڑا بند باندھ رکھا ہے۔ قوم کو انگریزی کا طوق گلے سے اُتارنا ہوگا تاکہ اس کو اپنی استعداد اور صلاحیتوں کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع مل سکے۔ نیز اس سے صوبائی تعصب کا خاتمہ ہوگا اور چاروں صوبوں کے عوام یکجہتی کی لڑی میں پروئے جاسکیں گے۔ مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کرنے کے لیے عربی زبان کو دوسرے نمبر پر لازمی قرار دینا چاہئے۔ جبکہ انگریزی زبان کامقام ہمارے نظام میں تیسرے نمبر پر ہونا چاہئے۔ہمارے تین چوتھائی مسائل صرف انگریزی کی بالادستی کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں ۔ مقابلے کے امتحانات، دفتری خط و کتابت، عدالتی معاملات، تجارت اور کاروباری معاملات اور دیگر روزمرہ کے امور کو اُردو کے سانچے میں ڈھال لیا جائے تو ہمارا بہت سا وقت اور پیسہ محفوط رہ سکتا ہے۔ قوم اسی وقت اپنے آپ کو آزاد محسوس کرے گی جب اپنی زبان میں اپنے روزمرہ کے تمام کام انجام دے گی۔
ہمارے تعلیم آخر اُردو میں کیوں نہیں ہوسکتی؟ یہ زبان عربی اور فارسی اور سنسکرت کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے۔ عربی اور فارسی اپنے اپنے دامن میں بڑی علمی و ادبی ورثہ رکھتی ہیں ۔ اس زبان نے ہر زبان کی خوبیاں اپنے اندر سموئی ہیں ۔اس زبان میں انتہا درجہ کی بلاغت ہے۔ اس میں جو شیرینی اور مٹھاس ہے شاید کسی اور زبان میں نہ ہو۔ اس کی ضرب الامثال اور کہاوتیں دل افروز ہیں ۔ اس کا زندگی بخش ادب اور اخلاقِ فاضلہ سکھانے والی حکایات بہت لذیذ ہیں ۔ ہمارا سارا دینی سرمایہ اس زبان میں موجود ہے۔ اس کی پرورش میں ہمارے آباؤ اجداد کا خون شامل ہے۔ حقیقتاً اُردو زبان ہمارا قومی سرمایہ ہے جو ہمارے دینی، ملی، ثقافتی اور تہذیب اقدار کی وارث ہے۔