کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 5
میں سانس لینے کی بھی اجازت دینے کو تیار نہیں ۔ تین سالہ بچہ سکول میں جاتے ہی انگریزی کی نذر کردیا جائے اور سکول میں اُردو بولنا، پڑھنا اور سیکھنا اس کے لیے شجر ممنوعہ قرارپائے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے حکمران طبقے کو انگریزی فوبیا ہوگیا ہے۔ وہ اس حقیقت سے کیوں بے خبر ہیں کہ جب سے قوم کو انگریزی کا بخار چڑھا دیا گیاہے ، اس وقت سے پاکستان میں کوئی دانشور اور اعلیٰ پایہ کا مخلص رہنما قوم کو دستیاب نہیں ہوسکا۔ پوری پاکستانی قوم قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ قومی فکر پر جمود طاری ہے۔ قوم کے قویٰ ٹھٹھر گئے ہیں ۔ ہرشعبے میں ترقی معکوس کا عمل جاری و ساری ہے۔اب مزید کیوں نسل نو کی صلاحیتوں کا گلا گھونٹا جارہا ہے؟ کیا کسی قوم نے کبھی غیر ملکی زبان کو ذریعہ تدریس بنا کر ترقی کی ہے؟ کاش اربابِ حل عقد اس پر غور فرمائیں ! ہر زندہ قوم اپنے نظامِ تعلیم کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ وہ اپنے تدریسی عمل کو اپنے نظریے، عقیدے، وژن اور ضرورت کے مطابق ڈھالتی ہے۔ اپنی زبان پر فخر کرتی ہے اور اپنی تعلیمی روایات کواپنی زبان میں اپنی اگلی نسل تک منتقل کرتی ہے۔ غیر زبان میں نسل نو اپنے اُستاد کی بات کو کیسے سمجھے گی، غیر زبان میں اپنا سبق رٹنے سے بچوں کی تخلیقی و فکری کاوشیں بالکل کند نہ ہو جائیں ۔ان کو اپنا اندوختہ کیسے سمجھ میں آئے گا اور وہ اس کے مطابق عمل کیسے کریں گے؟ یہ لمحہ فکریہ ہے، ہمیں پوری دیانتداری سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم یونہی انگریزی زبان کی اندھا دھند ترویج میں مصروف رہے تو مغربی ثقافتی اثرات بھی ساتھ آرہے ہیں اور پھر مزید یہ اثرات بڑھتے جائیں گے جو آہستہ آہستہ ہمارے نظریے،ہماری آزادی اور ہمارے دین سب کو تباہ کردیں گے جبکہ ہمارے نظریات کا تحفظ، دین کا استحکام اور وطن کی بقا تو اُردو زبان کی ترویج اور اس کی بقا ہی سے وابستہ ہے۔ اُردو زبان پورے برصغیر میں اور دنیا کے بیشتر حصوں میں سمجھی جانے والی زبان ہے۔عالمی لسانی سروے کے مطابق دنیا کی تیسری بڑی اور سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان