کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 4
یہاں کے وسائل استعمال کر کے مہنگی مغربی تعلیم حاصل کی اور پھر انہی کی سرزمین پر جابسے۔ وہ اپنی ذہانت، قابلیت اور صلاحیتوں سے اہل مغرب کی یونیورسٹیاں ، کارخانے اور ہسپتال سنوارتے رہے اور خود اہل وطن ان کی صلاحیتوں سے محروم رہے۔ یوں ذہانت کا وطن عزیز سے فرار جاری رہا۔ ملک میں مغربی تعلیم یافتہ حکمرانوں نے سنجیدگی سے کبھی بھی پاکستانی نقطہ نظر سے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہی نہ کی بلکہ مغرب کی دی ہوئی پالیسیوں کے مطابق پاکستانی حکمران مغرب کے دیئے ہوئے اہداف کو پورا کرتے رہے اور پاکستان کو مغربی آقاؤں کے لیے نرم چراگاہ بنانے میں لگے رہے۔ وطن عزیز میں انہی کی روایات، تہذیب اور ثقافت بے حیائی کی صورت فروغ دینے میں مصروف رہے۔ صرف وہ لوگ اس مغربی ثقافت سے بچ سکے جن کو گھروں میں دینی ماحول ملا اور ان کے اپنے بزرگ ان کو ملک و ملت کی اہمیت سے آگاہ کرتے رہے۔ہمارے تعلیمی نظام پر مسلسل اہل مغرب کی یلغار کا تازہ شاخسانہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو ابتدا سے ہی انگلش میڈیم میں پڑھایا جائے۔ اس غرض کے لیے گزشتہ تین چاہ ماہ سے سرکاری سکولوں کے اساتذہ خصوصاً پرائمری ٹیچرز کو ٹریننگ دینے کے لیے ریفریشر کورسز کروائے گئے۔ ان ریفریشر کورسز میں ان کو یہ سکھایا گیا کہ ابتدا سے بچوں کو کس طرح انگریزی میں پڑھانا ہے۔اُنہوں نے دورانِ ٹریننگ اس اقدام کی وجہ یہ بیان کی کہ لوگ عموماً اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ سرکاری سکولوں کی طرف عوام کا رجحان کم ہورہا ہے ۔لہٰذا سرکاری سکولوں کو اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے مجبوراً یہ قدم اٹھانا پڑا ہے تاکہ یہ سکول برقرار رہ سکیں ۔اس پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ: ’’خوئے بد را بہانہ بسیار‘‘ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار کو ایسی کون سی مجبوری ہے جس کے باعث وہ اب تک اُردو زبان کو وطن عزیز میں اس کا جائز مقام نہیں دے سکے، سرکاری زبان نہ بناسکے، ذریعہ تعلیم قرار نہ دے سکے اور اب اس حد تک مجبور ہوگئے کہ ننھے منے پھول سے بچوں کواُردو