کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 3
ہے کہ اگلے سیشن میں سرکاری سکولوں میں کوئی کلاس اُردو میں نہ ہوگی۔‘‘ [نوائے وقت، لاہور] آخر ایک غیر ملکی زبان کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے اور اُردو کو اس کے جائز حق سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے ۔ اُردو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان ہے۔ اُردو زبان نے نظریۂ پاکستان کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ علامہ اقبال اس زبان کوبہت اہم سمجھتے تھے۔ اس کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی وحدت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ خود محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ڈھاکہ میں ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے، اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کے بارے میں کوئی پریشان کن فیصلہ ہونے والا ہے۔ بالآخر اِس صوبے کے لوگوں کو ہی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبہ کی زبان کیا ہوگی؟ مگر میں یہ بات آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی۔ اُردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں ہوسکتی۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ کوئی قوم واحد سرکاری زبان کے بغیر متحد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی سرکاری فرائض بحسن و خوبی انجام دیئے جاسکتے ہیں ۔‘‘ (۲۱/ مارچ ۱۹۴۸ء) اس طرح محمد علی جناح نے واضح کردیا کہ اُردو ہی پاکستانی قوم کی اساس ہے اور یہی اس کی قومی ترقی کی ضامن ہے۔ پاکستان کی نسل نو ویسے تو بڑی ذہین ہے، لیکن رہنماؤں سے یہ غلطی ہوئی کہ کبھی ڈھنگ کی قومی تعلیمی پالیسی نہ بنائی جاسکی۔ بن بھی گئی تو اس پرپوری طرح صدقِ نیت سے عمل درآمد نہ ہوا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف وہ نظریۂ پاکستان کی اہمیت سے واقف نہ ہوسکے۔ قیامِ پاکستان کی ضرورت اور شہدا کی قربانیوں کاادراک نہ کرسکے۔ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے ملک اور اپنی زبان کی اہمیت ان کے دلوں میں نہ پیدا ہوسکی۔ دوسری طرف ہندو اور مغرب کی جارحانہ ثقافتی یلغار نے ان کو اپنے دام میں پھانس لیا۔ ذرائع ابلاغ نے بھی ہندو اور مغربی تہوار بڑے اہتمام اورجوش و خروش سے ان کے ذہن و قلب میں راسخ کئے۔ تیسری طرف مغربی تعلیم یافتہ لوگ خصوصاً انگلش میڈیم طبقہ اپنے آپ کو کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگے۔ پاکستان کے بجائے لندن، واشنگٹن اور پیرس ان کی خوابوں کا مرکز قرار پائے۔