کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 29
یتیم کی توقیر کرتے رہنا، اسے ستانا نہیں ۔
آیت نمبر۵، نمبر۸اور نمبر۱۱ دعویٰ دلیل اورحکم ہیں ۔ دعویٰ یہ ہے کہ تجھے تیرا ربّ دے گا تو خوش ہو جائے گا۔ دلیل یہ ہے کہ توتنگ دست تھا، اس نے غنی کر دیا، حکم یہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ دیا ہے، اس کا تذکرہ کر۔
اسی طرح نمبر۴، نمبر۷ اور نمبر۱۰، دعویٰ، دلیل اور حکم ہیں ۔ ساری آیتیں مالی حالت سے تعلق رکھتی ہیں ۔ دعویٰ یہ ہے کہ تیرا مستقبل تیرے ماضی سے بہتر ہو گا، دلیل یہ ہے کہ تو ضال تھا(تیری کوششیں رائیگاں جاتی تھیں ) اس نے راہِ فلاح بتائی۔ حکم یہ کہ مانگنے والے کو نہ جھڑکنا، سورہ کے لف ونشر کو اور ضل سعیہم کو خیال میں نہ رکھنے کی وجہ سے اور اُردو میں ترجمہ کرنے والوں کے ایک لفظ پر اصرار نے سورہ کے فہم میں دشواریاں پیدا کر دی ہیں ۔
یہ سورۃ الفرقان :۳۲،۳۳ کے مطابق حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشفی کے لئے اُتری مگر اس سے ہم کوحسب ِذیل مسائل معلوم ہوئے جن کو ہماری اقتصادی نظام کا جزو ہونا چاہیے۔
1.یتیم کی توقیر واجب ہے، اس پر سختی نہ کرنی چاہیے۔
2.سائل کی توہین نہیں کرنی چاہیے۔
3.اللہ نے بندے پر جو نوازش کی ہے اس کو ظاہر کرنا چاہیے، خصوصاً خدامِ دین کو ۔
ہم نے دیکھا ہے ایک وکیل جس کی آمدنی زیادہ ترقانون کی کمزوریوں سے مجرموں کے حق میں استفادہ کا اجرہوتی ہے، قانون کے بجائے قانون شکن کی حمایت کی مزدوری ہوتی ہے۔وہ جب خدمت ِخلق کا مدعی بن کر آتا ہے تو لوگ اس سے نہیں پوچھتے کہ تیری آمدنی حلال ہے یا حرام؟ لیکن جب ایک متقی آدمی سامنے آتا ہے تو لوگ طرح طرح کے شبے ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہو نہ ہو اسے فلاں ادارہ کچھ دیتا ہے ، فلاں حکومت کچھ دیتی ہے۔ شیطان اس طرح اتقیا کی عزت پر دھبے لگایا کرتا ہے اور فساق کی عزت بڑھایا کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحدیثِ نعمت کا اس لیے حکم ہوا تھا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ان کا ہادی کسی کا دست نگر نہیں ہے۔ جب کبھی عوام کو شبہ ہو جاتا ہے کہ ان کو اس کی تعلیم دینے والا محتاج اور کسی نہ کسی کا دست نگر ہے، تو پھر اس کی باتوں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔