کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 28
تھی تو اللہ نے وحی نازل فرمائی: ﴿وَالضُّحٰی٭ وَالَّیْلِ إِذَا سَجٰی٭ مَاوَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی٭ وَلَلْآخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْأوْلٰی٭ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی٭ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَآوٰی٭ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی٭ وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی٭ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ٭ وَاَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنْہَرْ٭ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴾ ’’دن کی روشنی شاہد ہے اور رات جب کہ تاریک ہو جاتی ہے۔ تیرے ربّ نے نہ تو تجھے چھوڑ دیا ہے اور نہ وہ ناراض ہے اور تیرا مستقبل تیرے ماضی سے بہتر ہو گا اور تجھے تیرا ربّ دے گا تو خوش ہو جائے گا۔ کیا اس نے تجھے یتیم نہ پایا پھر پناہ دی اور تجھے ناکام پایا پھر راہ کامیابی دکھائی اور تجھے تنگ دست پایا اور غنی بنا دیا؟ اس لیے یتیم پر سختی نہ کرنا اورمانگنے والے کو نہ جھڑکنا اور اپنے ربّ کی نعمت کا تذکرہ کر۔‘‘ ( سورۃ الضحیٰ) ہر زبان میں بعض الفاظ متعدد معانی پر دلالت کرتے ہیں ۔ جملے کے دیگر الفاظ کی مدد سے کثیر المعانی لفظ کے معنی میں سے ایک کی ترجیح ہوتی ہے۔ ضلال کے متعدد معانی ہیں : أبرہۃ الأشرم کے کتبے میں …ضللن (ضلالنا)ہماری دوستی کے معنی میں آیا۔ ضلال عربی میں ’عشق ناکام‘ کو بھی کہتے ہیں ۔ ﴿تَاﷲِ إنَّکَ لَفِیْ ضَلٰـلِکَ الْقَدِیْمِ﴾میں ضلال بے جا محبت کے معنی میں آیا۔ ضلّ سعیہم کے معنی ہیں : ان کی کوشش ناکام رہی۔ سورۃ القلم میں ہے کہ أصحاب الجنۃ نے اپنے باغ کی تباہی دیکھ کر کہا:﴿ إنَّا لَضَآلُّوْنَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ﴾ یعنی ہم نامراد بلکہ محروم ہو گئے۔ ضلال گمراہی کو کہتے ہیں ۔ اس معنی میں بکثرت قرآن میں یہ لفظ آیا ہے ۔ راستے کی تلاش کو بھی کہتے ہیں مگر قرآن میں اس معنی میں یہ لفظ نہیں آیا ہے۔ ضلال کی ضد ’ابتدا‘ اور اضلال کی ضد ’ہدایت‘ ہے۔ اب سورہ پر غور کرو۔تین دعووں کی ترتیب سے تین دلیلیں اور دلیلوں کی ترتیب سے تین نصیحتیں ہیں :آیت نمبر۳، نمبر۶ اورنمبر۹ بالترتیب دعویٰ، دلیل اور حکم ہیں ، دعویٰ یہ ہے کہ تیرے ربّ نے تجھے چھوڑ نہیں دیا ہے ، دلیل یہ ہے کہ تو یتیم تھا، اس نے تجھے پالا پوسا، حکم یہ ہے کہ