کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 27
سے ہما ری قیادت پر مترفین کا قبضہ ہے۔ جب تک ہم دولت کو اپنا معیارِ توقیر بنائے رکھیں گے، تب تک تقویٰ اورعلم دین کے بجائے ذو مال اور مترف ہونے کو وقار اور قیادت اور حکمرانی کی وجہ استحقاق سمجھتے رہیں گے۔ اللہ کا ناطق فیصلہ ہے کہ ہم اس کے قہر وغضب ہی کے حقدار ہوں گے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نفس دولت مند ہونا کسی کو معزز یا مستحق قیادت ہونے سے محروم کر دیتا ہے بلکہ مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ ذو مال،اور مترف ہونے کو معیارِ توقیر نہ ہونا چاہیے۔ مترفین سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے۔چونکہ میرا مضمون صرف مالیات تک محدود ہے، اس لیے اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ ہمارا معیارِ توقیر کیا ہو نا چاہیے؟
سورہ القیامہ، النساء، النازعات، الانفطار، الاعلیٰ، الغاشیہ،الشمس،الضحیٰ، الکوثر،الکافرون، الاخلاص،الرحمن اور الحاقہ یہ تیرہ سورتیں لوگوں کے اعتراضوں یا سوالات کے جواب میں اُتریں ، ان میں سے الضحیٰ، اور الحاقہ میں مالیات سے متعلق آیتیں ہیں ۔سورۃ الرحمن میں بھی ایک آیت ہے جس میں میزان درست رکھنے کا حکم ہے۔ مگر ایسی آیتوں کے ساتھ ہے کہ اس کا کچھ اور مطلب بھی ہو سکتا ہے جس کا تعلق کائنات سے ہو سکتا ہے۔
سورۃ الضحیٰ اوریتیم وسائل کی توقیر
چونکہ عرب کا معیارِ تو قیر خوش حالی اور دولت تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیداہوئے اس لیے ایک زمانہ آپ پر تنگ دستی کا گذرا۔ خوش حالی کے دنوں میں بھی آپ نے مسکین کی سی زندگی بسر کی کیونکہ اپنی کمائی محتاجوں پر صرف کرتے تھے اور فیاضی کی نمائش نہ کرتے تھے، اس لیے لوگوں نے طعنہ دیا کہ ودعہ ربہ وقلا یعنی اسے اس کے ربّ نے چھوڑ دیا اور اسے رخصت کر دیا ہے۔ ایسا طعنہ کسی اور وجہ سے حضرت داؤد کو بھی دیا گیا تھا۔چنانچہ وہ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’میرے دشمن میری بابت باتیں کرتے ہیں ،اور میر ی طرف تاکتے ہوئے باہم مشورہ کرتے وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے اسے چھوڑ دیا ہے، اس کا پیچھا کر کے اسے پکڑ لو،کیونکہ کوئی نہیں جو اسے چھڑائے ۔‘‘ (زبور۷۱:۱۰،۱۱)
تو ہی اے الٰہ! میری توانائی ہے، تو نے مجھے کیوں ترک کر دیا ہے۔ (زبور۴۳:۲)
کفار نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہی بات کہیں جو کبھی حضرت داؤد علیہ السلام کی بابت کہی گئی