کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 26
ہونے کا ذکر ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں جو کہ ان پانچ سورتوں میں سے ہے جن میں مکی اور مدنی عہد کی آیتیں ہیں ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿ وَإِذَا اَرَدْنَا اَنْ نُّہْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوْا فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیْرًا﴾ (بنی اسرائیل:۱۶)
’’اورجب بھی ہم نے کسی بستی کو ہلاک کرناچاہا تواس بستی کے ناز پر وردہ لوگوں کو حکم دیاتو اُنہوں نے اس میں فسق و فجور سے کام لیا۔ تب اس پر بات حق ہو گئی۔ پھر ہم نے اسے تباہ وبرباد کر دیا۔‘‘
خوش حال وناز پروردہ ہونا اور بہت مال دار ہونا انسان کو فسق وفجور میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس لیے آپ نے دیکھاکہ بالکل ابتدائی دنوں میں اللہ کی توحید کی طرف،ملائکہ پر ایمان کی طرف،کتب ِسماویہ کی اتباع کی طرف اور رسولوں کی اطاعت کی طرف دعوت دینے سے پہلے مگر حیات بعد ممات اور عذاب آخرت کے اثبات کے ساتھ اللہ جل جلالہ نے حب ِمال، تکاثر، جمع مال اور مالداری کو معیارِ توقیر قرار دینے کی مخالفت کی۔
موجودہ اقتصادی نظام ان چاروں جرائم کا روادار ہے۔پاکستان میں بھی معیارِ توقیر مال داری ہے اور حکومت وقیادت کا حق بھی مال دار ہی کو ہے۔ آئین ساز جماعتوں کا رکن ہونے کے لئے زرِ ضمانت جمع کرانا، اُمیدوار کو تھوڑی مگر کچھ رقم انتخاب کے لئے جدو جہد میں صرف کرنے کی اجازت دینا، سیاسی جماعتوں کی سربراہی کے لیے دولت مندوں کو تاکنا،بڑی تنخواہ والے نوکر کو چھوٹی تنخواہ والے سے زیادہ معزز سمجھنا، ایک متقی امام مسجد کے مقابلے میں ایک غیر متقی دولت مند کو زیادہ عزت دینا۔ ایک شخص کے وقار کو آنے، پائی اور روپیہ کے ترازو پر تولنا یہ سب اسی اقتصادی نظام کی برکتیں ہیں ۔پاکستانیوں ہی کا نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کا اخلاق ناگفتہ بہ ہو گیا ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگر زندہ ہو کر آجائیں تو وہ شاید اپنی اولاد کو ان کی صورتیں اور سیرتیں دیکھ کر ابوجہل اور ابو لہب سے بھی برے لوگ سمجھیں گے اور ہمارے تجدد پسند اَکابران کو ڈنڈے لے کر دوڑائیں گے کہ یہ کٹھ ملّا ہمارے دیس میں کیوں آگئے؟
ہم میں اسلام سے فرار پایا جاتا ہے، اس کی بنیادی وجہوں میں سے ایک یہ ہے کہ مدتوں