کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 25
اور حکومت کا حق بھی دولت مند کو تھا۔چنانچہ جب اُنہوں نے اپنے زمانہ کے نبی علیہ السلام کے ذریعہ سے مانگ کر طالوت پایا تو کہنے لگا: ﴿قَالُوْا اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ﴾ (البقرۃ:۲۴۷) ’’ہم پر حکومت کا حق اسے کہاں سے مل گیا۔ حالانکہ حاکم ہونے کے حق دار اس سے زیادہ ہم ہیں اور اسے مالی وسعت نہیں دی گئی۔‘‘ قریش کا بھی معیار توقیر مال تھا۔ سورۃ القلم:۱۰تا ۱۴ پڑھو۔ ایک شخص کا نام لیے بغیر اخلاقی حلیہ بیان کیا گیا ہے۔ ہمیں اس کے نام کی جستجو نہ کرنی چاہیے۔ نہایت بد اَطوار ہونے کے باوجود وہ شخص مقتداے قوم تھا، اللہ نے ایسے بد اَطوار کی اطاعت سے منع کیا ہے۔ وہ صرف اس لیے قوم کا مقتدا تھا : ﴿اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِیْنَ﴾ (القلم :۱۴) ’’وہ مال اور اولاد والا تھا۔‘‘ قرآنِ کریم میں کہیں آیت اس مضمون کی تو نہیں ہے کہ دولت مند کسی صورت میں مستحق توقیر نہیں ہوتا، لیکن دولت کو معیارِ توقیر بنانے کے خلاف جا بجا اِشارے ملتے ہیں ۔ سورۃ العلق میں فرمایا:﴿کَلَّا إِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی٭ اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی﴾ (العلق:۶،۷) ’’ زنہار! کیونکہ انسان سرکش ہو جایا کرتا ہے جب کہ خود کو دیکھ لیتا ہے کہ غنی ہو گیا ہے۔‘‘ قرآنِ کریم کی چار آتیوں زخرف :۲۳،سبا:۳۴، مؤمنون :۶۴ ، اور اسرائیل :۱۶ میں گناہ گاروں کی ایک قسم کا ذکر مُترفین کے نام سے آتا ہے۔یہ لفظ ترف سے مشتق ہے ، عبرانی لفظ ترافیم اسی سے بنا ہے۔گھریلو بتوں کو، جو لکڑی کے ہوتے تھے اور ان پر سونے چاندی کی خول چڑھی ہوتی تھی، ترافیم کہتے تھے۔ ترف کے معنی عبرانی میں ناز ونعمت اور آرام میں پلنا ہے۔اصلی مفہوم سونے چاندی میں منڈھا ہونا۔عربی میں ترفۃ کے معنی ہیں : چہرہ کی چمک دمک بوجہ خوشحالی۔ اِتراف کے معنی ہیں : ناز ونعمت میں پالنا۔ مترف کے معنی ہیں : وہ جسے ناز ونعمت سے پالا گیا ہو۔ اپنے دست و بازو سے کما کے دولت مند ہونے والے کو مترف نہیں کہتے تھے۔ مترف وہ دولت مند ہے جو دولت میں پلا ہو۔زخرف :۲۳ اور سبا:۳۴ میں بتایا گیا ہے کہ انبیا کرام کی مخالفت ہمیشہ مترفین نے کی۔ مؤمنون:۶۴ میں مترفین کے مستحق عذاب