کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 24
نہیں رکھتے تھے بلکہ بیوپار یا بیوہار میں چالو رکھتے تھے۔ بینکنگ کو لوگ خیال کرتے ہیں کہ نئی چیزہے مگر عراق میں یہودیوں کے ایسے تمسکات مل چکے ہیں جن سے پانچویں اور چھٹی صدی قبل مسیح سے بینکنگ کے رواج کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ خود ایک ساہوکا ر بینکر تھے۔ اہل مکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا مال امانت رکھا کرتے تھے، لیکن آپ حفظ ِامانت کی اُجرت نہیں لیتے تھے اور امانت کا مال کاروبار میں نہیں لگاتے تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ امانت کی رقم کاروبار میں لگاتے تھے، اس لیے سود دیتے اور سود لیتے تھے جسے بعد میں چل کرنا جائز قرار دیا گیا ہے۔ سورئہ نوح اور معیارِ توقیر حبِ مال،تکاثر اور جمع مال کی رِیت نے دولت کو معیارِ توقیر بنا دیا تھا۔ جو شخص جتنا زیادہ دولت مند ہوتا تھا، اتنا ہی زیادہ مؤقر اور معزز ہوتا تھا۔ اس لیے ایک دولت مند دوسرے کے مقابلہ میں ناز کیا کرتا تھا کہ ﴿اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا﴾ (الکہف:۳۴) یعنی میں تجھ سے زیادہ مال دار اورتجھ سے زیادہ (کما سُت)افراد خاندان والا ہوں ۔چونکہ دولت معیارِ توقیر تھی،اس لیے عرب کے لوگ قومی قیادت اور سرداری کا حق دار بھی دولت مند ہی کو باور کرتے تھے۔حب ِمال، تکاثر اور جمع مال کی تقبیح کے بعد اللہ نے عربی معیارِ توقیر کے بدلنے کی طرف توجہ دی۔سورہ نوح میں جو کہ کسی کے قبولِ اسلام اورکفار کے بحث وجدال کاسلسلہ چھیڑنے سے پہلے اُتری ۔قصہ نوح علیہ السلام کے سلسلے میں فرمایا: ﴿قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ إِنَّہُمْ عَصَوْنِیْ وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْہُ مَالُہُ وَوَلَدُہُ إِلَّا خَسَارًا﴾ (نوح:۲۱) ’’نوح علیہ السلام نے کہا: اے میرے ربّ! ان لوگوں نے میرا کہا نہیں مانا بلکہ ایسے کی بات مانی جس کے مال اور اولاد نے اس کے خسارے کو بڑھایا۔‘‘ قومِ نوح کا معیار توقیربھی مال دار ہونا تھا، اس لیے وہ مال دار ہی کو اپنا رہنما اور اپنا حاکم ماننا چاہتے تھے۔ نوح علیہ السلام کا مد مقابل ایک دولت مند رئیس تھا۔ قوم نے دولت کی بات مانی، نوح علیہ السلام کی بات نہیں مانی۔ بنی اسرائیل میں بھی حضرت طالوت علیہ السلام کے زمانہ تک دولت ہی معیارِ توقیر تھی