کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 23
ہی اس نظام کے پرزے پرزے بکھر جائیں گے جس طرح اس سورہ نے عربی اقتصادیات کی جان نکال دی اور اس کی جگہ ایک ایسا نظامِ زندگی وجود میں آیا کہ ایک مدت تک مسلمانوں میں زکوٰۃ قبول کر سکنے والا بہت تلاش کے بعد مشکل سے ملتا تھا۔
سورئہ ہمزہ او رجمع مال
اِنہی ابتدائی ایام کی سورتوں میں سے ایک سورۃ ہمزہ ہے۔ حب ِ مال ترقی کر کے جب تکاثر بن جاتا ہے تو ہر شخص کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اگر واقعی دولت مند ہے تو سچ مچ عالم بیداری میں ، ورنہ خواب یا تمناؤں کے عالم میں دولت پر دولت کا انبار لگاتا ہے اور گنتا رہتا ہے: ایک، پھر دو، پھر چار، پھر آٹھ۔ عرب میں ایسے بھی تھے جو تجوریوں میں مال پر مال اکٹھے کرتے تھے اور ایسے بھی تھے جن کی جیبیں خالی تھیں مگر ان کی تمناؤں کا صندوق گنجینۂ قارون سے کم نہ تھا، اس لیے اللہ نے فرمایا:
﴿وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ نِ٭ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہُ٭ یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہُ اَخْلَدَہُ٭ کَلاَّ لَیُنْبَذَنَّ فِیْ الْحُطَمَۃِ٭ وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْحُطَمَۃُ٭ نَارُ اﷲِ الْمُوْقَدَۃُ٭ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلٰی الْاَفْئِدَۃِ٭ إِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُّؤصَدَۃٌ٭ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ﴾ (سورہ الہمزۃ)
’’خرابی ہے ہر ایسے کے لئے جو طعنہ دیتا ہے عیب لگاتا ہے جو کہ مال کو یکجا کرتا اور (ایک ،دو، چار ) گنتا رہتا ہے ، خیال رکھتا ہے کہ اپنے مال کو ہمیشہ رکھے گا( اس کو )۔ نہیں زنہار، نہیں اسے تو جھونکا جائے گا توڑ دینے والی میں اور تو کیا جانے کہ توڑ دینے والی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آگ ہے بھڑکائی جانے والی جو کہ جھانک لیا کرتی ہے دلوں کو ان پر اسے گھیر دیا جائے لمبے لمبے ستونوں (کی صورت ) میں ۔‘‘
مدنی سورہ توبہ میں چاندی سونے کے کنز کی برائی اور اس کا مستوجب ِعذاب ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اَحادیث میں احتکار کی برائی کا بھی بیان ملے گا، میں نے اپنے مضمون کو قرآن تک محدود رکھا ہے۔ بعض اصحاب کہیں گے کہ جمع مال یا کنز سے مراد دولت کو تجوریوں میں قید کر کے بے مصرف بنا دینا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے ۔عدَّدہ کا مطلب ہے ایک پھر دو پھر چار پھر آٹھ کہہ کر لینا۔ جن لوگوں کی تفہیم کے لئے یہ سورہ اُتری وہ اپنا مال تجوریوں میں بند کر کے