کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 22
نہیں بلکہ سوچئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا کہ لوگوں کے لئے حب ِشہوات کو دلکش بنا دیا گیا ہے۔ اللہ تعالے نے فرمایا:
﴿ قُلْ اَ ؤُ نَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ ﴾ (آل عمران:۱۵)
’’کہہ دیجیے کیا میں تمہیں خبر دوں ان سب سے بہت بہتر کا۔‘‘
قرآن مجید سے اور اَحادیث سے اور قدماے مسلمین سے اس بہتر کا سراغ لگایئے، اہل علم کو بتائیں کہ حبِ مال کو کس طرح حبِ آخرت پر مبدل کیا جا سکتا ہے۔ میرا مقصود صرف اس قدر بتانا تھا کہ اِصلاحِ معاش کے لئے سب سے پہلے اللہ نے مال کی محبت کو مستوجب ِعذاب قرار دیا۔ہمارا یہ عقیدہ ہی نہیں رہا اور اگر ہے تو بہت کمزور ہے کہ حبِ مال ایک ایسا جرم ہے جس کی آخرت میں ہم کو سزا دی جائے گی۔
سورہ تکاثر
سورہ عادیات اور سورہ تکاثر دونوں بالکل ابتدائی سورتیں ہیں ۔ حبِ مال جب تک ایک فرد کے دل میں رہتا ہے تب تک وہ حبِ مال ہے، لیکن جب وہ ایک ایک فرد کے دل پر قبضہ جما لیتا ہے تو وہ ’تکاثر‘ بن جاتا ہے۔تکاثر کے معنی ہیں دولت مندی میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے اور ایک دوسرے کو زک دینے کے لئے مقابلہ ومسابقت ۔حب ِمال کی تقبیح کے بعد اللہ نے تکاثر کی تقبیح فرمائی اور ارشاد فرمایا:
﴿ألْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ٭ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ٭ کَلاَّ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ٭ ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ٭ کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ٭ ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ٭ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ﴾( سورۃ التکاثر)
’’غفلت میں رکھتا ہے تم کو تکاثر یہاں تک کہ تم (اپنی اپنی) قبریں دیکھتے ہو، پھر زنہار وقت آتا ہے جب تم جان لوگے یقینا تم لوگ دوزخ کو دیکھو گے ، پھر تم اسے ضررو دیکھو گے بالیقین دیکھنا، پھر تم سے اس دن (اب کی) خوش حالی کی باز پرس ہوگی۔‘‘
ہمارے آج کے جدید ماہرین معاشیات جس اقتصادی نظام کے پیش نظر اسلامی شریعت کی جراحی کر کے اس کے مادّۂ فاسد کو مغربی ڈاکٹروں کے مشورہ سے نکال پھینکنے کے لئے تیار ہیں اور ہم کو تیار کرنا چاہتے ہیں ، اس کا تار پود ’تکاثرکا جواز‘ ہے۔ تکاثر کے جواز پر پابندی لگتے