کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 21
سب سے پہلے اس دکھتی رگ پر اُنگلی گاڑی اور فرمایا: ﴿وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا٭ فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا٭ فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا٭ فَأثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا٭ فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا٭ إِنَّ الإْنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ٭ وَّإِنَّہُ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیْدٌ٭ وَّإِنَّہُ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ ﴾ (العادیات:۱ تا۸) ’’شاہد ہیں ٹولیاں جو ہانپتے گھوڑے دوڑاتی ہیں پھر چقماق رگڑ کر آگ روشن کرتی ہیں پھر صبح کے وقت چھاپہ مارتی ہیں ، پھر اسی صبح میں گرد اُڑاتی ہیں ، پھر اسی صبح میں ایک اجتماع کے بیچ میں گھس جاتی ہیں ۔ یقینا انسان اپنے ربّ کا احسان فراموش ہے او ریقینا وہ اس حقیقت کا خود گواہ ہے اور یقینا وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔‘‘ عرب کے سب مشرکوں کا نہیں تو اکثر مشرکوں کا یہ گمان تھا کہ اللہ سِرّ ونجویٰ کو نہیں سنا کرتا (الزخرف:۸۰) انسان کے بہت سے اعمال کی اس کو خبر نہیں ہوتی ( حم ٓ السجدۃ:۲۲) اس لیے ان آیتوں میں الانسان کو مال ودولت کا بے حد حریص ثابت کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا: ﴿اَفَلَا یَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ٭ وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ٭ إِنَّ رَبَّہُمْ بِہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّخَبِیْرٌ﴾ ( العادیات:۹تا ۱۱) ’’تو کیا اسے علم نہیں کہ جب بر آمد کیا جائے گاجو کچھ قبر میں ہے اور حاصل کیا جائے گا جو سینوں میں ہے، بے شک اس دن تو ان کا ربّ ان کی خبر لے کے رہے گا۔‘‘ چوری، ڈاکہ، فریب، دھوکہ، دغا بازی، حق تلفی، بہانہ بازی، غصب، سود خوری غرض ایک لمبی فہرست جرائم کی گنائی جا سکتی ہے جس کی بنیاد حب مال ہے۔اس لیے سب سے پہلے انسان کے جس روحانی مرض کی طرف وحی الٰہی نے اشارہ کیا وہ یہی ہے۔ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے پاکستانی معاشرہ کو جو گھن چاٹ رہی ہیں ان میں حبِ مال بھی توشامل نہیں ہے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ ہمارے روحانی امراض میں اس مرض کو نمایاں حیثیت حاصل ہے،دنیاداروں کو کیا کہیے، مرشدوں کو نذر ونیاز چاہیے، خطیبوں کو خطبوں کا دام چاہئے۔ اماموں کو نماز کی قیمت چاہیے إِنْ اَجْرِیَ إِلَّا عَلٰی اﷲ کہنے والا شاید ہی کہیں نظر آئے: مال کی محبت روز بروز دن دوگنی رات چوگنی ہوتی جاتی ہے۔ مال ودولت کی محبت کو بالکل مٹایا تو نہیں جا سکتا، لیکن اسے قابو میں لانا ضروری ہے،آپ پو چھیں گے کہ وہ کیسے ؟پوچھئے