کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 20
کی کسی نہ کسی بات کے جواب میں اُتریں ۔سورہ القدر،سورہ الفاتحہ،سورہ نوح،سورہ العادیات سورہ التکاثر،سورہ القارعہ،سورہ الفیل،سورہ القریش کسی کے سوال یا اعتراض کا جواب نہیں ہے۔ان ۹ سورتوں سے پہلے سورہ العلق ۱تا ۵ کو بھی رکھ لیجئے کیوں کہ قرآن کے نزول کا سلسلہ اِنہی سے شروع ہوا۔ ان ۹ سورتوں میں سے سورئہ قدر کے اندر نزولِ قرآن کی پہلی رات کو خطرہ کی ہر بات سے مامون بتایا گیا ہے۔فاتحہ کا ذکر سورۃ حجر میں سبعًا من المثاني کے لقب سے وارد ہے۔یہ بات امام بخاری رحمہ اللہ کی حدیث کے مطابق حضرت ابو سعد بن معلی رضی اللہ عنہ کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی۔ سورہ نوح اورعادیات کے علاوہ جتنی سورتوں میں حیات بعد ممات سے متعلق آیتیں ہیں ،ان سب میں یا تو کفار کی تکذیب کا ذکر ہے یا ان کے تردیدی اَقوال منقول ہیں ، اس لیے علق: آیات ۱ تا۵ ، قدر ، فاتحہ، نوح، اور عادیات قطعی طور پر قرآنِ مجید کی قدیم ترین آیتیں ہیں ۔ہمزہ، تکاثر ، فیل ، قریش اور قارعہ کو بھی اِنہی ایام کی سورتیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ حب ِمال یہ امر قارئین کے لئے باعث ِحیرت ہوگا کہ توحید و رسالت پر ایمان کے مطالبہ سے پہلے اللہ نے اہل مکہ کی توجہ مبذول کی تو اس امر کی طرف کہ مال کی محبت مستوجب ِعذاب ہوتی ہے۔ جن لوگوں کی نظر ایامِ جاہلیت کے عربی اشعار پر ہے، ان کو معلوم ہو گا کہ عرب کے نزدیک سب سے بڑا عیب مال کا حریص ہونا تھا،ہر عرب کو مال و دولت سے نہایت بے پروا ہونے کا اِدّعا تو تھا، مگر ان کی اقتصادی زندگی کا ہر مرسوم یہ خبر دیتا تھا کہ یہ قوم مال کی بے حد حریص تھی۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کو بڑی بے مروّتی سے لوٹ لیا کرتا تھا اور قبیلہ کا شاعر بڑے فخر سے اپنے غارت گرانہ کمالات پر ناز کرتا تھا۔ سورئہ عادیات سورئہ عادیات میں اللہ نے ان کی غارت گری کی تصویر کھینچ کر اس تصویر سے یہ ثابت کیا کہ الانسان مال و دولت کا بے حد حریص ہوتا ہے، عرب کی سب سے زیادہ دکھتی رگ یہی تھی کہ اس کو مال کا حریص کہا جائے۔لہٰذا اللہ نے عربوں کی اقتصادی اِصلاح کی غرض سے