کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 18
’’یہ اللہ کی کتاب ہے جس میں گذشتہ قوموں کے حالات ہیں اور آنے والے واقعات کی خبر ہے ۔یہ کتاب تمہارے درمیان پیش آنے والے مسائل کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، کوئی مذاق نہیں … جس نے اس کی بنا پر کوئی بات کہی تو سچ بولا،جس نے اس کی بنا پر عمل کیا تو وہ اَجر کا مستحق ہوگیا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا تو اس نے عدل کیا۔‘‘ اسلام ’دینِ عدل‘ ہے۔ بندہ ہونے کے ناطے مرد اور عورت برابرہیں تو نماز کی ادائیگی اور روزہ رکھنا دونوں پر فرض ہے۔ صنفی اعتبار سے مختلف ہیں تو عورت کے لئے حیض کے دنوں میں نماز معاف اور روزہ قضا کردیا گیا۔ وراثت کا حق دار تو دونوں کو قرار دیا گیا، لیکن ذمہ داریوں میں فرق کی وجہ سے حق میں تفریق کردی گئی۔ معاشی سرگرمیوں کی اجازت دونوں کے لئے ہے لیکن فریضہ یہ مردوں کا قرار پایا۔ جہاد میں شرکت کی اجازت دونوں کے لئے ہے، لیکن فرض مردوں پر ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے گورا اور کالا، عربی و عجمی، اَمیرو غریب پیدا کیا، اس بنیاد پر تفریق کو حرام قرار دیا۔ مگر انسان کی روحوں سے ’عہد ِاَلست‘لے کر توحید کی تعلیم دی۔ پھر اُنہیں فطرتِ سلیم پر پیدا کیا۔ پھر آسمانوں سے وحی کا نور نازل کیا۔ اب کچھ لوگوں نے وحی کے نور اور نورِ فطرت پر لبیک کہا اور اللہ کا فرماں بردار یعنی’ مسلم‘ بن گئے اور دوسرے لوگوں نے نہ صرف نورِ وحی کا کفر کیا بلکہ نورِ فطرت کو بھی مسخ کرنے پر تلے رہے۔ اللہ کے باغی وسرکش بن کر زندگی بسر کی، ایسے لوگ کافر کہلائے۔ دونوں کے حقوق و فرائض برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ دونوں مساوی کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ایک اَشرف المخلوقات کے درجے پر فائز اور دوسرا اَسفل السافلین میں جاگرا۔ جانوروں سے بھی بدتر درجہ میں !یوں اسلام تمام ’اَدیانِ عالم ‘ یعنی زندگی گزانے کے مختلف طریقوں کو برابر حیثیت دینے کے لیے قطعاًتیار نہیں بلکہ اللہ کے دین کو ’الحق ‘ اور باقی تمام اَدیان کو باطل قرار دیتا ہے اور انبیاء و رسل کو ’حق ‘ کے غالب کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے مبعوث کرتاہے : ﴿ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ﴾ (الصف:۹) ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسیسب اَدیان غالب کردے ۔‘‘