کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 17
شرک کرنے والا ہمیشہ جہنم کا ایندھن بنے گا: ﴿مَن یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدْ حَرَّمَ اﷲُ عَلَیہِ الْجَنَّۃَ﴾ (المائدۃ: ۷۲) اور ’توحید‘ کا حامل آخرکار لازماً جنت میں جائے گا:((من مات من أمتی لا یشرک باﷲ شیئا دخل الجنۃ)) (صحیح بخاری:۳۲۲۲) ان قرآنی حقائق کا اعتقاد رکھ کر یہ کیسے مانا جاسکتاہے کہ شرک کرنے والا، توحید ماننے والے کے برابر ہوسکتا ہے۔ ’مساوات‘ کا اُصول یہاں ظلم عظیم کے مترادف ہے۔
عدل کیا ہے؟
عدل کیا ہے ؟ عدل کی سادہ سی تعریف یہی ہے کہ ’’حق دار کا حق اَدا کرنا‘‘یعنی جس چیز کا جو حق ہے، وہ اسے دینا ’عدل‘ کہلاتاہے۔ عدل کا مفہوم علما بیان کرتے ہیں :
اَلْتَسْوِیَۃُ بَیْنَ الْمُتَمَاثِلَاتِ وَالتَّفْرِقَۃُ بَیْنَ الْمُخْتَلِفَاتِ
’’ہم مثل چیزوں میں برابری قائم کرنا اور مختلف چیزوں کے درمیان تفریق کا رویہ اپنانا۔‘‘
اس تعریف کے بعد اب یہ سوال پیداہوتاہے کہ کسی شے کا حق کیا ہے؟یہ کیسے معلوم ہوگا؟ اس کا جواب ہے: ’شریعت ِاسلامی ‘یعنی شریعت ِاسلامیہ ہی عدل و توازن اور اعتدال کا نام ہے اور کفر اپنی تمام تر تشریحات میں ظلم،بے انصافی اور عدمِ اعتدال ہے ۔اس اعتبار سے ظلم و بے انصافی اور عدمِ اعتدال پر مبنی وہ فیصلہ و حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ اور شریعت سے ہٹا ہوا ہو، قرآنِ مجید میں اِرشاد ربانی ہے :
﴿وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا اَنزَلَ اللّہُ فَاُوْلَـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ﴾ (المائدۃ :۴۵)
’’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی ظالم ہیں ۔ ‘‘
﴿وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ اَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ﴾ (النسائ:۵۸)
’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘
عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے سے کیا مراد ہے ؟ اس کی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے جسے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے :
((کِتَابُ اﷲِ فِیہِ نَبَأُ مَا کَانَ قَبْلَکُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ، وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ،وَہُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْہَزْلِ… مَنْ قَالَ بِہِ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِہِ أُجِرَ، وَمَنْ حَکَمَ بِہِ عَدَلَ)) (سنن ترمذی:۲۶۰۹)