کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 14
میں مختلف ہونے کے باوجود زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے اپنی اپنی اہمیت رکھتے ہیں لیکن اپنا اپنا مختلف کردار بھی۔ یقینا دونوں میں سے کسی ایک صنف کی غیر موجودگی میں زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ مگر دونوں ایک ہی کردار ادا کرنے پر بضد ہوں تو بھی گاڑی تباہ ہی ہوگی۔ اگر ایک کو ماں بن کر پیٹ میں بچے کو پالنا، پھر سینے سے چمٹا کر دودھ پلانا اور پھر گود میں تربیت کرنا ہے تو دوسرے کو باپ بن کر اس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اور نگہبانی کا فرض ادا کرنا ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں مساوات معاشی سرگرمیوں میں ہر قسم کے لوگوں کے لئے ہر قسم کے پیشے سے مال کمانا ’مساوات‘ کی قدر کا ہی جادو ہے۔ کوئی شراب بیچے یا چاول ، سود اور جوئے کو آمدنی کا ذریعہ بنائے یا تجارت و صنعت کو۔ کوئی عورت جسم فروشی کا دھندہ اپنائے تو اسے Sex workerکا نام دیا جائے اور کوئی معلمۂ ایمان و اخلاق بن جائے تودونوں مساوی حقوق اور احترام کی حق دار قرار پائیں ۔ اسلام ہر طرح کی معاشی سرگرمیوں کو ’مساوی‘ درجہ پر نہیں لاتا بلکہ حلال و حرام اور جائز وناجائز کے خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کا خالق و مالک ہے، تمام کائنات کا بھی خالق و مالک ہے، حلال و حرام قرار دینا اس کا حق ہے۔ اور اس کے حکم کی اطاعت کرنا انسانوں کا فرضِ اوّلین بلکہ عبادت و بندگی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر جس کسی کے حکم و قانون کی پیروی کی جائے وہ کوئی فردِ واحد آمر و ڈکٹیٹر ہو، یاپیرو پنڈت یا اَحبار و رہبان ہوں یا عوام کی نمائندہ اسمبلی، یہ اسی کی بندگی کہلاتی ہے۔ اسلام نے شراب پینے اور بیچنے کو حرام قراد دیا اور دودھ اور مشروبات کو حلال، سود، جوئے اور دھوکہ کو حرام قراردیا اور تجارت و صنعت اور زراعت کو حلال،زنااور قحبہ گری،غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ، قربانی، نذر ونیاز کو حرام کیا جبکہ نکاح،اللہ کے نام پر ذبیحہ، قربانی اور نذرونیاز کو حلال۔ پس حرام اور حلال برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟حرام ذرائع سے رزق کمانے والا، حلال ذرائع سے رزق کمانے والے کے برابر کیسے ہوسکتا ہے۔ سود کھانے اور کھلانے والا، اللہ اور اس کے رسول سے اعلانِ جنگ کا مرتکب، دنیا میں سزا اور آخرت میں عذاب کا حق دار جبکہ دیانت دار تاجر دنیا میں برکت والا اور آخرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی۔