کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 13
ایک جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے پھیلائے بہت سے مرد اور عورتیں ۔‘‘ ﴿وَمِنْ آیٰتِہِ اَنْ خَلَقَ لَکُم مّنْ اَنفُسِکُمْ اَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً ﴾ (الروم:۲۱) ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے پیدا کیں تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں تاکہ تم سکون حاصل کرو ان کے پاس۔ اوراس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔‘‘ یوں بھی جس طرح کوئی مرد اللہ کی مخلوق ہے اسی طرح عورت بھی، جس طرح مرد پر کچھ ذمہ داریاں اپنے خالق کی طرف سے عائد کی گئی ہیں ، اسی طرح عورت پر بھی۔ جس طرح مرد کے کچھ حقوق ہیں ، اسی طرح عورت کے لئے بھی اور جس طرح مرد قیامت کے دن اپنے ربّ کے سامنے جواب دہ ہے، اسی طرح عورت بھی اپنے عقیدہ و عمل میں اپنے ربّ کے سامنے جواب دہ ہوگی۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحْیِـیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (النحل:۹۶) ’’ جو شخص مردوں سے یا عورتوں سے ہو اچھا کام کرے وہی ایمان والا ہے۔ہم اس کو پاکیزہ زندگی بخشیں گے اور جو وہ عمل کرتے تھے اس کا بہتر اجر عطا کریں گے۔‘‘ مگر جس طرح عورت اور مرد کی خلقت میں فرق ہے، ایسے ہی ان کی ذمہ داریوں اور حقوق میں بھی فرق ہے۔ یہی عدل کا تقاضا اور اسلام کی تعلیم ہے۔’صنفی‘ حیثیت میں برابری کے اُصول کو ثابت کرنے کے لئے اوّلاً تو کوئی دلیل نہیں دی جاسکتی کہ ’مساوات‘ کی قدر تثلیث پر ایمان کی طرح بلا دلیل قبول کی جاتی ہے اور اسے ناقابل بحث قرار دیا جاتا ہے۔ ثانیاً دلیل دی بھی جاتی ہے تو انتہائی بودی کہ جس طرح گاڑی چلنے کے لئے پہیوں کا کردار مساوی ہے، اسی طرح انسانی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے مرداور عورت دوپہیوں کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہ مثال اپنی بنیاد میں ہی غلط ہے،کیونکہ گاڑی کے دونوں پہیے اپنی خلقت میں ایک جیسے ہوتے ہیں جبکہ مرد اور عورت اپنی تخلیق میں ہی مختلف پیدا کئے گئے ہیں ۔ اس کے لئے صحیح تمثیل یہ ہوگی کہ مرداور عورت کو گاڑی کے دو اہم پرزے قرار دیا جائے جو اپنی خلقت