کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 12
کے بندے، کفار، مشرکین، منافقین، درہم و دینار کے بندے اور ’حزبِ شیطان‘ کہے جاتے ہیں ۔ اوّل الذکراہل حق ہیں ، دنیا میں ہدایت اور آخرت میں نجات پانے والے۔ اور ثانی الذکر ’اہل باطل‘گمراہ اور آخرت میں عذاب ِالٰہی کے حق دار یہ دونوں فریق ’مساوی‘ کیسے ہوسکتے ہیں ؟ قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ :
﴿اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ﴾ (القلم:۳۵)
’’کیا ہم فرمانبرداروں کا حال مجرموں کا سا کردیں ؟‘‘
اوّل الذکر’ گروہ‘ مسلمانوں کی محبت دوستی اور وَلا کا حق دار ہے جبکہ ثانی الذکر مسلمان کی برات، دشمنی اور غیریت کا مستحق!
مرد وزَن میں مساوات
پھر جاہلیت کے علم برداراسی ’مساوات‘ کو ’صنفی‘ تفریق مٹانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مرد اور عورت مساوی ہیں ،اُنہیں برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں ۔ عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کارگاہ ِعمل میں اُترنا چاہئے۔ زندگی کے ہر شعبے میں عورت کا کردار ہونا چاہئے اور مرد وعورت کو مخلوط ہونا چاہئے۔ چادرا ور چاردیواری پرانے دور کی باتیں ہیں ۔ شرم و حیا رجعت پسندی کی یادگاریں ہیں ، اگر مرد کو چارشادیوں کی اجازت ہے تو عورت کو بھی برابر ہونی چاہئے ورنہ مرد کے لئے بھی ایک۔ مرد نبی ہوسکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ؟ مرد سربراہ مملکت بن سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ؟
اس ’صنفی‘ مساوات کی دلیل نہ تو کسی نبی کے صحیفے میں ہے نہ عقل سلیم کے وظیفے سے بلکہ سراسر اَہوا اور ظنون ہیں ، شہوات و شبہات ہیں ، خواہشاتِ نفس اور توہماتِ عقل ہیں ، شیطانی وسوسے ہیں ، علمِ وحی سے بغاوت ہے، تعلیماتِ انبیا سے سرکشی ہے اور عبدیت و بندگی سے اِعراض ہے۔
اسلام ہر دو اَصناف (مرد اور عورت) کے مابین انسان ہونے کے ناطہ سے کوئی فرق اور امتیازروا نہیں رکھتا بلکہ دونوں کو ایک ہی نفس کا جوڑا قراردیتا ہے:
﴿یَا اَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَنِسَائً﴾ (النسائ:۱)
’’اے انسانو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا