کتاب: محدث شمارہ 336 - صفحہ 10
ہونے کی حیثیت میں متبرک ہونا؛ ’مذہبی ‘ اعتبار سے کوئی کافر ہے یا مسلمان، مشرک ہے یا موحد، اہل کتاب ہے یا اہل الحاد، ’مساوات‘ ان افراد کو برابری کا درجہ دے گی اور مذہب کے فرق کی بنا پر ان کے مابین کسی قسم کا امتیاز نہ برتا جائے گا۔ جبکہ اسلام ’عدل‘ کا دین ہے، عدل کے مقابل ’ظلم‘ کا لفظ آتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مذہبی اعتبار سے تمام انسانوں کو برابر کا درجہ دے دینا ایک’ظلم ‘ہے جسے آج کی جاہلیت ’مساوات‘ کا نام دیتی ہے۔ قرآنِ مجید نے کہیں بھی مسلمانوں کو مساوات کا درس نہیں دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے’ عدل‘ کا حکم دیا ہے: ﴿إِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ بِالْعَدْلِ﴾ (النحل:۹۰) ’’اللہ تم کو انصاف کا حکم دیتا ہے۔ ‘‘ ﴿ وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ اَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ﴾ ( النسائ:۵۸) ’’اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔‘‘ شیخ محمد بن صالح عثیمین شرح العقیدۃ الواسطیۃ میں لکھتے ہیں : وَھُنَا یَجِبُ أَنْ نُنَبِّہَ عَلیٰ أَنَّ مِنَ الْنَاسِ مَنْ یَسْتَعْمِلُ بَدْلَ الْعَدْلِ: المُسَاوَاۃُ،وَہٰذَا خَطَأٌ، لَا یُقَالُ مُسَاوَاۃٌ لِأَنَّ المُسَاوَاۃَ قَدْ تَقْتَضِيْ الْتَّسْوِیَۃَ بَیْنَ شَیْئَینِ وَ الْحِکْمَۃُ تَقْتَضِيْ التَفْرِیْقَ بَیْنَہُما ’’یہاں یہ نشاندہی کر نا ضروری ہے کہ بعض لوگ ’عدل ‘ کے بدلے ’مساوات ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ غلطی ہے۔ پس ’مساوات ‘کی اصطلاح ’عدل ‘کی جگہ پر استعمال نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ کبھی’مساوات ‘ دو چیزوں کے درمیان برابری کا تقاضا کرتی ہے جبکہ ’حکمت ‘ اِنہی دو چیزوں کے درمیان جداجدا حیثیت کا تقاضا کرتی ہے ۔‘‘ شیخ دوسری جگہ لکھتے ہیں : وَلھٰذَاکَانَ أَکْثَرُ مَاجَائَ فِيْ الْقُرْآنِ نَفْيَ الْمُسَاوَاۃِ ’’اس لیے قرآنِ کریم میں اکثر وبیشتر مساوات کی نفی کا ہی تذکرہ آیا ہے،مثلاً: ‘‘ ٭ ﴿ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون﴾ (الزمر:۹) ’’جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے، دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟‘‘ ٭ ﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الاَعْمَی وَالْبَصِیْرُ اَمْ ہَلْ تَسْتَوِیْ الظُّلُمٰتُ وَالنُّورُ﴾ (الرعد:۱۶) ’’پوچھو! کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں ؟ یا اندھیرا اور اُجالا برابر ہوسکتا ہے؟‘‘ ٭ ﴿لَا یَسْتَوِیْ مِنکُم مَّنْ اَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلَئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ